زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

فلسفہ عدل سیدعادل علوی

فلسفہ عدل

پانچویں قسط

آقای سیدعادل علوی مدظلہ

ترجمہ:مرغوب عالم عسکری ہندی

اصول دین کی دوسری قسم عدل الٰہی ہے،عدل الٰہی کاشمار خدا کے ان صفات میں ہوتاہے جنھیں صفات کمالیہ الہیہ کہاجاتاہے، خداکے عادل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے فیصلہ میں کسی پرظلم نہیں کرتااورنہ ہی اپنے محاکمہ پر افسوس کرتا ہے۔

وہ اپنےبندوں پر وہ چیزیں واجب نہیں کرتاجنہیں وہ انجام نہ دے سکیں اورنہ ہی ان پر استحقاق سے زیادہ عقاب رواجانتاہے ، وہ عمل جو قبیح وناشائستہ ہوتاہے ان سب سے منزہ ہے، عدل الہی کو اصول دین میں قراردینے کی وجہ یہ ہے کہ اساس اسلام بلکہ مطلق احکام دین کا دارمدار حتیٰ دین اسلام کی تکمیل اورنبی ﷺ کی حقانیت وصداقت سب کچھ اسی پر موقوف ہے۔

عدل کے لغوی معنیٰ "وضع الشیء فی موضع" کسی چیز کو اس کے محل میں قرار دینے کے ہیں یاعدل معنی " الحدالوسط بین الافراط والتفریط   ای الحکمہ" وہ نقطہ وسط جو افراد وتفریط کے مابین واقع ہو کہ جسے حکمت کہتے ہیں۔

اصطلاح شرع میں خداکے عادل ہونے کے معنی جیسا کہ گزرچکاہے کہ وہ کسی پر ظلم وستم نہیں کرتا اورنہ ہی کسی ایسے کام کوترک کرتاہےجس کا انجام دینا ضروری ہو ہر وہ شی کہ جس کا صدور اس کی ذات پر برکات سے ہوتاہے ۔ اس کا مبنیٰ حکمت الٰہیہ ربانیہ کو قرار دیاجاتاہے عدالت اجتماعی (یعنی کائنات کی تمام اشیاء کے درمیان اعتدال ومساوات)عدل الٰہی کا بہترین مظہرہے۔

عدالت خداوندی کے سلسلہ میں " عدلیہ" یعنی ،امامیہ ،و ،معتزلہ ،کاعقیدہ ہے کہ وہ فعل جوخدا کی ذات سے انجام پاتاہے اس کیلئے کوئی نہ کوئی ایسی غرض وغایت کاہونا لازم ہے جس کا فائدہ مخلوقات کی طرف عائد ہو وہ ایسا فعل ہرگز انجام نہیں دیتاجواس کے بندے کے حق میں نفع سے خالی ہو اور دنیاو آخرت میں اسکے لئے باعث ضرر وعذاب ہو پس بندے کاقیامت میں عذاب سے دچار ہونااز طرف خداوندی ہے مگر اس کا سبب ارتکاب گناہ(جواس کی خودمختاری)کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ہے اوروعدہ  و وعید کی حجت کے بعد ہے لہذا اس کی طرف ظلم کی نسبت دیناصحیح نہیں ہے بلکہ لوگ خود اپنے نفوس پرظلم کرتے ہیں۔

افعال انسانی خودمختارانہ طور انسان سے صادر ہوتے ہیں ،نہ اس میں جبر کار فرما ہے نہ تفویض کی شمولیت ہوتی ہے ،بلکہ معاملہ دوامروں کے مابین دائر ہے اور حسن وقبح عقلی سے موصوف ہے پس ان میں سے بعض افعال عقلاً قبیح حسن ہیں اوربعض افعال عقلاً قبیح ہیں پروردگار عالم ان پر قدرت رکھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ انہیں انجام نہیں دیتابلکہ انجام دینے کا ارادہ بھی نہیں رکھتاہے۔ اس لئے کہ امرقبیح کاارتکاب اوراسکے انجام دینے کا ارادہ خد اکی نسبت جبھی ممکن ہے کہ جب بھی اسے جاہل اورغافل ہونے کے ساتھ عاجز ہونابھی تسلیم کرلیاجائے درآن حالیکہ خداوندعالم   ذات ،عالم علیٰ الاطلاق وقادر مطلق ہونے کے ساتھ ساتھ "لاتاخذہ سنۃ ولانوم" کی بھی مصداق ہے خداوندعالم تمام افعال کو اپنی حکمت ومصلحت کے دائرے میں انجام دیتاہے یہ اس کی مصلحت ہی کاتقاضا تھاکہ وہ اپنے بندے کومعرض ثواب میں لانے کیلئے اپنی شریعت کاپابند بنائے نیز اسے اطاعت  وفرمانبرادری کے حکم کی تکلیف دے اورعصیان وکراہت سے منع کرے خدا کی طرف سے مطالبہ اطاعت اورعصیان کی نفی ایک امر تشریعی ہے کہ جس کے بعد افعال کے وقوع  کی ذمہ داری مطلقاً بندے کی طرف عائد ہوتی ہے اوربندہ اپنے تمام افعال وکردار میں خود مختار قرار پاتاہے پس اللہ نے اپنے بندے کو دونوں ہی راستوں کی نشاندہی کردی ہے اورہدایت کاراستہ دکھادیاپس چاہے تووہ دامن ہدایت پکڑ کر شکرگزار بندہ بن جائے یاکفر اختیار کرکے اس کے عذاب کامستحق ہوجائے۔

خدا  اپنے بندوں پر نہایت ہی شفیق ومہربان ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے عبادت واطاعت کی تکلیف کاسزا وار بندے کو قرار دیا پس اس تکلیف کی ذمہ داری بندے کے حق میں بعنوان  ثواب  وابدی سعادت کی حیثیت سے تھی کہ جس کے حاصل ہونے کا معیار وملاک استحقاق پرتھا یہی وجہ ہے کہ اللہ نے وہ تمام اسباب وعلل کہ جو ایک بندے کی ہدایت وابدی سعادت کے حصول کیلئے درکار ہوتے ہیں مثلاً قدرت، نعمت ،ترسیل رسل ،تنزیل کتب وغیرہ سب کچھ عنایت ومرحمت فرمایا نیز انسان کی فلاح وبہبود کیلئے جو امور سازگار ہیں اسکا حکم دیا اسی کے ساتھ ساتھ ان تمام چیزوں سے منع بھی کیا جو اسکے حق میں نقصان دہ و ضرر کاباعث ہیں پس ان تمام ہدایات وارشادات کے بعد حکم عدولی وفرامین الٰہی کی مخالفت کے نتیجے میں بندے کو جو سزا دی جائے اس کا ذمہ دار خود بندے کو نہ قراردیتے ہوئے اس کی نسبت خدا کی طرف دینا صحیح ودرست نہیں ہے۔

خدا کا لطف کرنا اپنے بندوں پر اس کے معنی یہ ہیں  کہ وہ اغراض کہ جن کا حاصل کرناعقلاً خدائے تعالیٰ پر واجب ہے حتٰی کہ تحصیل غرض کی راہ میں جو شئے درکار ہے اس کا ترک کرنابھی قبیح ہے لہذا کسی بھی طرح کے امر قبیح کو خداکی طرف منسوب کرناجائز نہیں ہے کیونکہ وہ کمال مطلق ہے۔

لطف کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ جس کے ذریعہ سے بندہ خداکی اطاعت سے قریب اوراسکی معصیت سے دور ہوجائے اوریہ قرب اطاعت اوربعدمعصیت کسی جبرواکراہ کے اطاعت ومعصیت کے انجام دینے پر قدرت وتوانائی رکھتاہو۔

عدل الٰہی بلکہ تمام اصول دین کے اثبات پر بہترین دلیل فطرت سلیم کاوجود میں ہے کہ جسے ایزدمنان نے طبیعت انسانی میں ودیعت فرمایاہے فطرت سلیم(عقل سلیم)اس بات کابخوبی احساس وادراک کرتی ہےکہ ظالم وخائن شخص کو اس کے ظلم وخیانت کی سزا اورایک عادل وامین کو اس کی نیکیوں وحسن سلوک کی جزاملنی چاہیے نیز ایک محسن کواس کے احسان کابدلہ اورگنہگار وبدکارکواس کی غلط کاریوں کامعاوضہ دیاجاناچاہیے۔

چنانچہ اثبات عدالت سے متعلق قرآن مجید میں بہت سی آیتیں ذکر ہوئی ہیں جن میں سے چندکو ہم یہاں ذکرکرتے ہیں۔

" وماظلمناھم ولکن کانوا ھم الظّالمین"ہم نے کسی پرظلم نہیں کیا بلکہ وہ لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتےہیں ۔(زخرف:76)

" یُّدْخِلُ مَنْ یَّشَآءُ فِیْ رَحْمَتِہٖ، وَالظّٰلِمِیْنَ اَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا" وہ جسے چاہتاہے اپنی رحمت میں داخل کرتا ہے اور اسی نے ظالمین کے لیے بڑا دردناک عذاب تیار کیا ہے۔(دھر:۳۱)

خداوندعالم ہرطرح کے عیب ونقص سے منزہ ہے جب حضرات امیرالمومنینؑ سے توحیدوعدل کے بارے میں سوال کیاگیا،جیساکہ یہ بات نہج البلاغہ میں مذکور ہے توآپ نے جواب میں یہ کلمات ارشاد فرمائے:"التوحیدان لاتتوھمہ والعدل ان لاتتھمہ" توحید یہ ہے کہ اسےاپنے وہم میں نہ لاؤ اورعدل یہ ہے کہ تم اس پرتہمت نہیں لگاؤ۔

عدل کے متعلق مولاؑ کے اس کلام سے زیادہ مختصر وبلیغ اور مطلب رسا عبارت اورکیاہوسکتی ہے ہمارا عقیدہ ہے کہ جملہ افعال الٰہی عدالت وحکمت کے موافق ومطابق ہیں مخلوقات کی نسبت سے یہ اس کی عدالت والطاف کاتقاضا تھاکہ اس نے اپنی ذات پریہ بات لازم قرار دی کہ انبیاء ورسول بھیجے تاکہ وہ انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیں نیز مشیت الٰہی کے مطابق ان کی ہدایت کاسلسلہ جاری رکھیں جس کی بابت وہ دنیاوآخرت میں کامیابی کے راستہ پرگامزن ہوسکیں۔