زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

(2)عصر غیبت میں امام مهدی (عج) کے فوائد - سید توقیر عباس کاظمی

عصر غیبت میں امام مھدی (عجل اللہ فرجہ ) کے فوائد

سید توقیر عباس کاظمی

پهلا قسط

آخری زمانے میں امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی آمد اور آپ کی عادلانہ حکومت کے قیام کا نظریہ تمام اسلامی مذاہب کے نزدیک مسلّم اور متفقہ ہے جس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں، کیونکہ قرآن مجید کی آیات بھی اس نظریہ کی تائید کرتی ہیں اور رسول خدا کی آحادیث بھی؛ البتہ جب سے رسول خدا ؐ کی زبانی حجت خدا کی غیبت کا موضوع بیان ہوا اسی وقت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی آیا کہ: ''غیبت کی صورت میں امام مھدی عج کے وجود کا فائدہ کیا ہو گا؟ اور غائب امام اپنے ماننے والے یا دیگر انسانوں کی زندگی میں کس طرح کوئی نقش وکردار ادا کر سکے گا؟ نیز یہ کہ کسی شخص کا اپنے غائب امام سے فائدہ حاصل کرنا کیسے ممکن ہے ؟

پیغمبر اکرم ؐ نے جابر بن عبداللہ انصاری کے اسی قسم کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا: والذی بعثنی بالنبوۃ انھم یستضیؤن بنورہ وینتفعون بولایتہ فی غیبتہ کانتفاع الناس بالشمس وان جلّلھا السحاب ''اس خدا کی قسم جس نے مجھے نبوت کے ساتھ مبعوث کیا، وہ لوگ اُس (امام مھدی ؑ) کی غیبت کے دور میں اس کے نور سے ضیاء پائیں گے اور اس سے اسطرح فائدہ حاصل کریں گے جیسے لوگ بادلوں کے پیچھے چھپے ہوئے سورج سے فائدہ حاصل کرتے ہیں''([1]

اسی قسم کی تعبیر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے خود بھی نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا: أما وجہ الانتفاع بی فی غیبتی فکالانتفاع بالشمس اذا غیبتھا عن الابصار السحاب ''لیکن میری غیبت میں مجھ سے فائدہ حاصل کرنا اسی طرح ہے جیسے سورج سے اسوقت فائدہ حاصل کیا جابئے جب وہ آنکھوں سے بادلوں کے پیچھے اوجھل ہو جائے'' ([2]

پیغمبر اکرم ؐ کا مذکورہ فرمان اور نہایت بامعنی اور جالب تعبیر، اگرچہ صاحبان ایمان کی تسلی وتشفی اوراطمینان کیلئے کافی ہے لیکن اس کے باوجود امام مھدی ؑ کے وجود پُرنورکا عقیدہ رکھنے والے صاحبان ایمان ایک طویل عرصہ سے مخالفین کے اعتراضات کی زد میں ہیں،کیونکہ شیعوں پرامام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے حوالے سے ہونے والے اعتراضات میں سے ایک اہم اعتراض یہ ہے کہ وہ ایک طویل عرصہ سے غائب امام کی زندگی پر یقین رکھتے ہیں جبکہ تمہارا  غائب امام تمہیں کیا فائدہ پہنچاتا ہے اور بھلا کسی غائب شخص سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟!

جیسا کہ اہل سنت کے حنبلی مذہب کے عالم ابن تیمیہ نے اپنی کتاب منھاج السُنّۃ میں شیعوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہاہے: مھدی الرافضۃ لیس لہ عین ولا أثر ولایعرف لہ حس ولا خبر لم ینتفع بہ أحد لافی الدنیا ولافی الدین ''شیعوں کے امام مھدی عج کا کوئی نام و نشان نہیں ہے ، نہ اُسے محسوس کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُسکی کوئی خبر ہے، نہ کوئی اُس سے دینی فائدہ حاصل کرتاہے اور نہ ہی دنیوی'' ([3]

 اہل تشیع پر یہ اعتراض اس حد تک بڑھا کہ بعض سادہ لوح مومنین بھی اس کی زد میں آنے لگے ہیں اور عام شیعہ جوانوں کے ذہنوں میں بھی امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے دور میں آپؑ کے وجود مبارک کے فوائد کے حوالے سے شکوک وشبھات جنم لینے لگے ہیں۔یہاں تک کہ یہ سوال بہت عام ہو رہا ہے  کہ کسی غائب امام کے عقیدہ سے امت کو کیا فائدہ ملتا ہے، بھلا وہ امام جو نہ کوئی فیصلہ کرے اور نہ کوئی فتوی دے، نہ کسی سے کوئی چیز لے اور نہ کسی کو کوئی چیز عطا کرے، نہ کوئی اسے دیکھ سکے اور نہ کوئی اس کی بات سن سکے، توایسے امام کے وجود کا کیا فائدہ؟! ۔

اس سوال کے جواب میں پیغمبر اکرم ؐ کی مذکورہ حدیث (جس میں امام مھدی ؑ کو بادلوں کے پیچھے چھپے ہوئے سورج سے تشبیہ دی گئی ہے)بھی لوگوں کیلئے قانع کنندہ دلیل ثابت نہیں ہوتی لہذا مناسب یہ ہے کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے اثرات اور لوگوں کو اُس غائب امام ؑ کے وجود سے حاصل ہونے والے فوائد پر بحث وگفتگو کی جائے تاکہ مخالفین کی زبانیں بھی بند ہو جائیں اور مومنین کو بھی اطمینانِ قلب حاصل ہو۔

چند اہم نکات:

غیبت کے دور میں وجودِامام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے فوائد کے بارے میں تفصیلی بیان سے پہلے چند نکات کو مدّنظر رکھنا ضروری ہے۔

پہلا نکتہ: وجودِ امام کے فوائد کا معلوم نہ ہونا، فوائد کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا:

امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے دور میں وجودِ امام کے فوائد کا معلوم نہ ہونااس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ غائب امام کے وجود کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور اس کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے کیونکہ عقلی قاعدہ وقانون کے مطابق [عدم الوجدان لایدلّ علی عدم الوجود] ''کسی چیز کا نہ پانا اس کے نہ ہونے پر دلالت نہیں کرتا''۔ اور علمی مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی ہے کہ کسی چیز کا علم نہ ہونے (عدم العلم) کو اُس چیز کے عدم وجود ( العلم بالعدم ) کی دلیل بنایا جائے جبکہ یہ بات واضح ہے کہ عالم تکوین وتشریع میں انسانی عقل بہت سے اہم امور کی شناخت سے عاجز ہے اورخاص طور پر مسلمانوں کیلئے بہت سے دینی مسائل(مثلاًنمازوں کی مخصوص رکعات، یا انکے کے اوقات و...) کی مصلحت درک کرنا ممکن نہیں ہے اس کے باوجود انہیں صرف اس عقیدہ کی بناء پر قبول کرنا پڑتا ہے کہ خداوند حکیم کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔

پس جب قرآن مجید یا صحیح روایات واحادیث کے ذریعہ کوئی نظریہ یا کوئی حکم ہم تک پہنچے تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ اسے قبول کرلیں چاہے اُس کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے یا نہ، جیسا کہ ہر دور میں ایک امام کے وجود اور آخری زمانے میں امام مھدی ؑ کی غیبت کے بارے میں اہل اسلام کی کتب میں متواتر روایات موجود ہیں، اس بناء پر ہر مسلمان کے لیے امام کے وجود اور آپ کی غیبت کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے اگرچہ غیبت کی مصلحت اور عصر غیبت میں امام کے وجود کے فوائد ہمارے لیے واضح نہ ہوں۔

دوسرا نکتہ:  غیبت کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ غائب نبی یا امام کوئی کام نہیں کرسکتا:

کسی بھی ہادی ورہبریاامام کی ظاہری طور پر عدم موجودگی کو دلیل بناتے ہوئے اس کے وجود کے فوائد وآثار کے بارے میں شک کرنا درحقیقت أولیاء اللہ کی صحیح معرفت نہ ہونے کا نتیجہ ہے کیونکہ اولیاء اللہ اور خدائی ہادی ورہبرجس طرح لوگوں کے درمیان اور ان کی نظروں کے سامنے رہ کر اُنہیں فوائد پہنچا سکتے ہیں اسی طرح لوگوں کی نظروں سے اوجھل اور پوشیدہ رہ کر بھی اُن کی زندگی پر اثرانداز ہو سکتے ہیں، اور اس بات کی ایک واضح دلیل قرآن مجید میں مذکور حضرت موسی ؑ  اور حضرت خضر کا واقعہ ہے ([4])؛ جس  سے اس بات کی طرف راہنمائی ملتی ہے کہ بسااوقات کوئی رہبر وولی عام لوگوں کی آنکھوں سے غائب ہوتا ہے لیکن غیبت میں بھی وہ اپنی قوم اور امت سے غافل نہیں ہوتا بلکہ سرّی طور پر اپنی امامت ورہبری کے فرائض سرانجام دیتا ہے جبکہ لوگ اُس سے واقف نہیں ہوتے ، جیسے حضرت خضر ؑ لوگوں کے درمیان رہ کر انہیں فوائد پہنچا رہے تھے لیکن عام لوگ  انہیں نہیں پہچان رہے تھے۔

امیر المومنین حضرت علی ؑ نے اسی نکتہ کی طرف متوجہ کرنے کیلئے اپنے صحابی کمیل بن زیاد نخعی سے مخاطب ہوکر فرمایا: اللھم بلی، لاتخلو الأرض من قائم للہ بحجّۃ، اما ظاہرًا مشہورًا او غائباً مغمورًا لئلا تبطل حجج اللہ وبیناتہ''بہرحال زمین ایسے شخص (امام) سے خالی نہیں ہوتی جو خدا کی حجت قائم کرے ،چاہے وہ ظاہر اور مشہور ہو یا خائف اور پوشیدہ۔ تاکہ پروردگار کی دلیلیں اور نشانیاں مٹنے نہ پائیں'' ([5]

تیسرا نکتہ: امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کا اصل مفہوم:

امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کے دور میں آپؑ کے وجود کے فوائد کے بارے میں غالباً ایسے افراد کے ذہنوں میں شک وشبہ پیدا ہوتا ہے کہ جن کے نزدیک امام کی غیبت کا مفہوم واضح نہیں ہے لہذا ضروری ہے کہ امام کے وجود کے فوائد کا ذکر کرنے سے پہلے آپ کی غیبت کا مفہوم واضح کیا جائے۔

امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے غائب ہونے سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپؑ لوگوں سے کنارہ کش ہو کر کسی مخصوص مقام پر تشریف فرما ہیں ، نہ کہیں آتے ہیں اور نہ ہی کہیں جاتے ہیں، نہ وہ کسی سے ملتے ہیں اور نہ کوئی اُن سے مل سکتا ہے۔ بلکہ آپ کی غیبت سے مراد یہ ہے کہ آپؑ لوگوں کے درمیان موجود ہونے کے باوجود اُن کی آنکھوں سے پنہان ہیں یعنی کوئی عام انسان آپؑ کو پہچان نہیں سکتا، اسی لیے امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کو ''غیبت شخصیت'' کا نام دیا گیا ہے۔

یعنی غیبت کی دو قسمیں ہیں:

 ١۔''غیبت ِ شخص''                   ٢:۔''غیبت ِ شخصیت''

''غیبت ِ شخص'' سے مراد وہی عام مفہوم ہے یعنی کوئی شخص لوگوں کی نظروں سے اس طرح غائب ہوکہ کوئی دوسرا انسان اُسے نہ دیکھ سکے؛ اور ''غیبت ِ شخصیت'' کے معنی یہ ہیں کہ غائب ہونے والا انسان لوگوں کے درمیان موجود ہو ، لوگ بھی اسے دیکھتے اور اُس سے ملاقات کرتے ہوں لیکن معاشرے کا کوئی فرد اس کی شخصیت سے واقف نہ ہو۔جس طرح حضرت موسی ؑ اور فرعون کے قصہ میں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ حضرت موسی ؑ ، فرعون کے قصر میں اور اُس کی آغوش میں رہے لیکن وہ آخر دم تک آپؑ کی شخصیت کا اندازہ نہ کر سکا، پس امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت بھی ''غیبت شخصیت'' ہی ہے یعنی لوگ آپؑ کو دیکھتے بھی ہیں اور ملتے بھی ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہی ہمارے امام ہیں۔

اگر امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں روایات اور واقعات پر دقتّ ِنظر سے دیکھا جائے تو آپؑ کی غیبت کا یہی مفہوم سامنے آتا ہے جیسا کہ روایت میں ہے: یری الناسَ ویعرفُھم ویَرونَہ ولا یعرفونہ''امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف لوگوں کو دیکھتے بھی ہیں اور انہیں جانتے بھی ہیں،اور لوگ بھی امام کو دیکھتے ہیں لیکن انہیں پہچانتے نہیں''([6])؛ نیزایک اور روایت میں ہے: صاحب ھذا الأمر یتردّد بینھم ویمشی فی أسواقھم ویطا أفرشھم ولایعرفونہ حتی یأذن اللہ لہ أن یعرّفھم نفسہ ''صاحب الزمان (امام مھدیؑ) لوگوں کے درمیان آتے جاتے ہیں، بازاروں میں چلتے اور زمین پر گھومتے پھرتے ہیں لیکن لوگ انہیں نہیں پہچانتے یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں اجازت دے کہ وہ لوگوں کو اپنا تعارف کروائیں'' ([7]

اسی بنا پر احادیث میں بیان ہوا ہے کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے بعد بہت سے لوگ یہ دعوی کریں گے ـ: انّا قد رأیناہ قبل ھذا ''ہم نے تو انہیں پہلے بھی دیکھا ہے''([8]

چوتھا نکتہ: ۔غائب امام کے وجود کا فائدہ نائبین کے ذریعہ بھی ملتا ہے:

غائب امام کے فوائد کے حوالے سے اس نکتہ کی طرف توجہ بھی ضروری ہے کہ امام کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ بذاتِ خود تمام ظاہری امور میں تصرف کریں بلکہ امام اپنے نائبین کے ذریعہ بھی  عام لوگوں کو نفع پہنچاتے  ہیں۔

ہردور اور ہر معاشرے میں یہی طریقہ چلتا آ رہا ہے کہ کسی ادارے یا مملکت کے سربراہ کی موجودگی ہی سے لوگوں کو نفع یا نقصان پہنچتا ہے چاہے وہ عام لوگوں کی نظروں کے سامنے ہو یا نہ ہو کیونکہ ہر سربراہ اپنے نمائندوں کے ذریعہ کام انجام دیتا ہے۔ پس جس طرح عام لوگوں کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اپنے سربراہ یا دنیاوی رہبر وپیشوا تک بلاواسطہ رسائی حاصل کریں اسی طرح ضروری نہیں ہے کہ عام لوگ بلاواسطہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف تک رسائی حاصل کریں۔  اسی لئے امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنی غیبت ِ صغری ، میں عام لوگوں کے ساتھ رابطہ کیلئے اپنے نمائندے مقرر فرمائے  جن کے ذریعہ سے عام لوگ امام کے ساتھ رابطہ قائم کر تے تھے۔ اسی طرح امام مھدی ؑ نے اپنی غیبت ِ کبری کے دور میں بھی عادل فقہا وعلماء کو اپنا نائب ِ عام مقرر کیا ہے اورانہیں اپنی طرف سے لوگوں پر حجت قرار دیتے ہوئے فرمایا: ھُمْ حجّتی علیکم وأنا حجّۃُ اللہ علیھم ''وہ میری طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی طرف سے اُن پر حجت ہوں'' ۔

پس امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت کبری کے دور میں فقہاء اور عادل علماء ہی دین کے محافظ ، دینی احکامات بیان کرنے والے اور لوگوں کی صحیح راہنمائی کرنے والے ہیں اسی لیے امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف نے اپنی آخری توقیع میں خود کو  بادلوں کے پیچھے اوجھل سورج سے تشبیہ دی ہے([9])۔  پس عصر حاضر میں امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے بعض فوائد آپ کے عام نائبین یعنی مجتھدین کے ذریعہ بھی حاصل ہو رہے ہیں۔

وجودِ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے فوائد:

اس میں کوئی شک نہیں کہ عام انسان امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود مبارک کی وجہ سے بہت سے فوائد حاصل کرتے ہیں جن کو انقریب وضاحت کے ساتھ بیان کیا جائے گا لیکن اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود سے حاصل ہونے والے فوائد وبرکات کو دو بنیادی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

١:نفسیاتی فوائد                  ٢: غیر نفسیاتی فوائد

وجودِ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے نفسیاتی فوائد:

عقیدہ اور نظریہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اثر انسان کی سیرت وکردار، اور اس کے اخلاق واحساسات پر نمایاں ہوتا ہے بلکہ انسان کا ہر عمل اُسکے عقیدہ و نظریہ کی عکاسی کرتا ہے اور اس کے نفسیاتی اثرات انسان کی زندگی پر مرتب ہوتے ہیں، پس اسی طرح زندہ وموجود امام کا نظریہ اور عقیدہ بھی انسان کی زندگی پر گہرا اثر رکھتا ہے اگرچہ وہ امام، امت کے درمیان موجود نہ ہو اور لوگ مختلف وجوہات کی بناء پر اُسے دیکھنے اور اس کی ملاقات سے قاصر ہوں، ذیل میں امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے عقیدہ ونظریہ کے کچھ نفسیاتی فوائد بیان کئے جاتے ہیں:

١: زندہ رہبرکا عقیدہ، ملت کی بقاء وسلامتی کا سبب:

اس اختلاف سے قطع نظر کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی ولادت ہوچکی ہے یا نہیں، تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف ہی مکتب اسلام کے حقیقی داعی اور علمبردار ہیں، وہی خلافت الھیہ کے وارث اور زمین والوں کیلئے اللہ کی حجت ہیں([10])؛ لیکن عقلی قوانین اور اجتماعی تجربات کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ کسی زندہ رہبر کے وجود کا عقیدہ اُس کے مکتب کی بقاء ودوام اور نظام کی حفاظت پر گہرا اثر رکھتا ہے چاہے وہ رہبر لوگوں کی دسترس میں ہو یا کسی وجہ سے ان کی دسترس سے دور ہولیکن اس کے برعکس اگر کسی قوم کو اپنے رہبر کے وجود کا یقین نہ ہو بلکہ وہ اپنے رہبر کی ولادت کے انتظار میں بیٹھی ہو تو یقینا اس عقیدہ کا نفسیاتی اثر مختلف ہو گا اور وہ قوم، رہبر کی عدم موجودگی کے نظریہ کے سبب ضلالت اورگمراہی کے سیلاب میں بہتی چلی جائے گی۔

زندہ قوموں کی تاریخ میں اس بات کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ جب تک کسی گروہ کو اپنے لیڈر ورہبر کی زندگی کا یقین رہا اُسوقت تک وہ گروہ پائیدار ومحکم اور ثابت قدم رہا اور یہی ثابت قدمی ان کی بقاء اور کامیابی کا سبب تھی اگرچہ وہ رہبر ظاہری طور پر ان کی آنکھوں کے سامنے نہ تھا لیکن جونہی کوئی گروہ اپنے رہبر کی زندگی کے بارے میں مشکوک ہوا تو یہی شک ان کے درمیان اختلاف وافتراق کا سبب بنا اور وہ گروہ نابودی وتنزلی کی طرف جانے لگا، جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ زندہ رہبر اور اس کے وجود کا عقیدہ ہی ملّت کی بقاء کا سبب ہے اورتاریخ اسلام میں اس کا بہترین ثبوت جنگ اُحد کا تاریخی واقعہ ہے : جب مسلمان، دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مشغول تھے اور انہیں تحس ونحس کررہے تھے کہ اچانک لشکر کے درمیان ایک آواز بلند ہوئی : الا قد قُتل محمّدؐ ''جان لو کہ محمدؐ قتل ہوگئے'' ؛ اور جونہی مسلمانوں نے اپنے رہبر کے قتل کی خبر سنی اور بعض نے یقین بھی کرلیا تو اس کا فوری نفسیاتی اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کی صفوں میں انتشار پیدا ہوگیا، کچھ نے راہ فرار اختیار کر لی، کچھ نے اپنے آپ کو دشمنوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا اور بعض مسلمانوں کے لشکر سے نکل کر دشمنوں کے ساتھ ملنے کا سوچنے لگے،لیکن جب پیغمبر اکرم ؐ کے قتل کی خبر جھوٹی ثابت ہوئی اور تذبذب کا شکار مسلمانوں کو اپنے رہبر کی زندگی کا یقین ہوگیاتو بکھرے ہوئے مسلمان خود بخود جمع ہونا شروع ہو گئے اور پھر سے جنگ شروع ہوئی اور لشکر اسلام سرخرو ہوا۔

پس زمین پر خدا کے دین کو قائم کرنے اور اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ کر کے انہیں نیست ونابود کرنے والے مسلمانوں کے رہبر وپیشوا حضرت امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی زندگی کے عقیدہ کا معاشرے پر نفسیاتی اثر انتہائی واضح اور قابل درک وفہم ہے لیکن اس کے برعکس اگر کوئی رہبر بالکل موجود نہ ہو اور اس کے مکتب کو ماننے والے مستقبل میں اُس کی ولادت کے منتظر ہوں تو اس نظریہ کا نفسیاتی اثر بالکل مختلف ہو گا۔

٢: امام کے وجود کا عقیدہ عمل صالح پر ابھارتا ہے:

تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ امام مھدیعجل اللہ فرجہ الشریف دنیا میں اسلامی انقلاب برپا کریں گے، ایک ایسا دینی انقلاب جو ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اور پھر پوری دنیا پر عدل و انصاف کا بول بالا ہو گا، اس عقیدہ کے نفسیاتی اثر کے نتیجہ کے طور پر ظلم وستم سے خستہ افراد کے دلوں میں امید کی قندیل روشن ہوتی ہے اور پھر ایسے افراد خودسازی اور عمل صالح کے ذریعہ اپنے آپ کو امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے دینی واسلامی انقلاب کیلئے تیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

نیز اہل تشیع کے عقیدہ کے مطابق (جو بہت سی روایات میں بھی بیان ہوا ہے) امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف اپنی غیبت کے دوران اپنے ماننے والے اور پیروکاروں پر نظر رکھے ہوئے ،اور مومنین کے اعمال سے باخبر ہیں اوربعض روایات کے مطابق ہر ہفتہ میں ایک یا دو مرتبہ مومنین کے اعمال آپ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں لہذا آپؑ مومنین کے تمام اعمال وکردار اور انکی گفتار ورفتار سے باخبر ہوتے ہیں([11]

پس اس عقیدہ کا نفسیاتی اثر یہ ہے کہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا اعتقاد رکھنے والے تمام مومنین ہر قسم کے گناہ سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے عمل صالح انجام دینے کی کوشش کریں اور کسی بھی کام کی انجام دہی سے پہلے امام زمانہ کی نظارت ونگرانی کو مدّنظر رکھیں اور پھر آہستہ آہستہ یہی عقیدہ انسان کی تربیت نفس کا سبب بنتا ہے کہ جس کا انکار ممکن نہیں۔

٣:روشن وپاکیزہ مستقبل کی امید:

امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کا ایک اہم نفسیاتی فائدہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں ایک اچھے اور روشن مستقبل کی امید پیدا ہوتی ہے اور اسی امید ہی سے انسان کو ہر گناہ وپلیدی اور ہرظلم وستم سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے اور اسی میں انسان کی کامیابی پوشیدہ ہے۔

امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود بابرکت کا عقیدہ رکھنے والا شخص ہمیشہ اس امید کے ساتھ زندگی گزار تا ہے کہ یقینا ہر ظلمت و تاریکی ،ہر برائی و بدکاری اور ہر ظلم و جور سے نجات ملے گی۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خداوند نے ہمیں ہرظلم و ستم اور ہر برائی و تباہی سے خالی، الفت و محبت سے بھری ہوئی دنیا کا وعدہ دیا ہے، وہ وعدہ کہ جس میں تخلف کا امکان ہی نہیں ،جیسا کہ خداوند نے فرمایا:(وَنُرِیْدُ أَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِیْ الاَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ اَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوَارِثِیْنَ وَنُمَکِّنْ لَھُمْ فِی الْاَرْضِ...) ''اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو لوگ روئے زمین میں کمزور کردئیے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان ہی کو پیشوا بنائیںاور انہی کو زمیں کا مالک قرار دیں اور انہی کو روئے زمین پر پوری قدرت عطا کریں...''([12])؛ اسی وعدہ کی نوید خدا کی طرف سے آئے ہوئے تمام پیغمبروں اور سفیروں نے دی یہاں تک کہ خدا کے آخری پیغمبر ،رحمت و سچائی کے پیکر رسول اکرم ؐ نے بھی ان دنوں کی خوشخبری دی هے کہ اچھائی کی جگہ برائی نہ لے سکے گی ، کینہ و دشمنی کی جگہ بھائی چارے کا بول بالا ہو گا لوگوں کے درمیان الفت و محبت کی حکومت ہو گی، نسیمِ عدل و انصاف پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔

پس امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود پر اعتقاد سے انسان ،ایک بہترین مستقبل کا امیدوار بنتا ہے اوراس کے دل میں یقین پیدا ہوتا ہے کہ مجھے بلکہ پوری دنیا کو کفر وشرک ، ظلم وستم اور ہربدی وبرائی سے نجات دینے والا موجود ہے، پھر وہ عملی لحاظ سے اُن دنوں کی انتظار میں رہتا ہے کہ جب آنے والاپردہ غیبت سے باہر آئے گااور وعدئہ الہی کو عملی جامہ پہنائے گا۔

٢: غیر نفسیاتی فوائد:

اس کائنات کا نظام چلانے کیلئے اللہ تعالی نے بعض چیزوں میں تکوینی طور پر انسانوں کیلئے فوائد عامہ رکھے ہیں یعنی کوئی انسان اس چیز کے فائدہ کو مانے یا انکار کرے لیکن وہ چیز بہرحال فائدہ پہنچائے گی ، اس کی ایک مثال سورج ہے کہ اس کائنات میں موجود نباتات، حیوانات، انسان اور دوسری تمام موجودات سورج کے نور سے فائدہ حاصل کرتیں ہیں ، چاہے کوئی اس کے فائدے کی طرف متوجہ ہو یا نہ ہو، اور سورج بھی بہرحال ہر ایک مخلوق کو فائدہ پہنچاتا ہے چاہے کوئی اس کے فائدے کو تسلیم کرے یا انکار کرے۔

اِسی طرح امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود مبارک میں بھی بعض فوائد عامہ موجود ہیں کہ جنہیں تکوینی فوائد کا نام بھی دیا جا سکتا ہے اور یہ فوائد ہر مخلوق کو مل رہے ہیں چاہے کوئی ان فوائد کی طرف متوجہ ہو یا نہ ہو، اور یہ فوائد ہر مخلوق کو ملتے بھی رہیں گے چاہے کوئی امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کو مانے یا انکار کرے، شایدایک اہم سبب یہی ہے جس کی بناء پر بہت سی روایات میں امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کو بادلوں کے پیچھے چھپے ہوئے سورج سے تشبیہ دی گئی ہے؛ البتہ امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے وجود کے فوائدعامہ کے علاوہ کچھ ایسے فوائد خاصہ بھی ہیں کہ جنہیں صرف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں کہ جوامام کے وجود پر مکمل یقین رکھتے ہوں اور جو افراد  امام کے وجود پر یقین نہیں رکھتے یا شک کرتے ہیں وہ ان خاص فوائد کو حاصل نہیں کر سکتے ۔

اس بنا پر عقیدہ مھدویت کے غیرنفسیاتی فوائدکو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

١): فوائد عامہ:                     ٢): فوائد خاصہ:

...جاری هے



[1] : کمال الدین(شیخ صدوقؓ) ج١، ب٢٣، ح٣.

[2] : حوالہ سابق

[3] : منھاج السنۃ النبویۃ(ابن تیمیہ):ج ٨ص١٨٧.

[4] : سورہ کہف (١٨) آیات ٦٥۔٦٦

[5] : نہج البلاغہ، قصار١٤٧.

[6] : بحار الانوار(مجلسی)ج١٥،ص٣٥٠.

[7] : الغیبۃ (النعمانی):ص٨٤، باب ان فی القائم سنۃ من الانبیائ؛ الکافی (کلینیؒ): ج٢ص٤٤٠(معمولی اختلاف کے ساتھ)

[8] : المھدی في کتب الصحاح والسنن(صدر الدین صدر): ص١٨٤.

[9] : کمال الدین(شیخ صدوقؓ)ج١، ب٢٣،ح٣۔

[10] : اسی نظریہ کے تحت اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ جب امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف پیدا ہوں گے تو تمام لوگوں کو آپ کی اطاعت واتباع کرنا ہوگی اور وہ لوگوں کی رہبری کا منصب سنبھال کر زمین میں عدل وانصاف اور اللہ کا نظام قائم کریں گے۔

[11] : کافی(کلینی):کتاب الحجۃ، باب عرض الاعمال علی النبیؐ والائمۃ؛ شیعہ تفاسیر،ذیل آیہ فَسَیَرَیْ اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ...، سورہ توبہ آیت١٠٥

[12] : سورہ القصص(٢٨) آیت٥،٦۔