زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
مقالوں کی ترتیب جدیدترین مقالات اتفاقی مقالات زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں
■ سیدعادل علوی (28)
■ اداریہ (14)
■ حضرت امام خمینی(رہ) (7)
■ انوار قدسیہ (14)
■ مصطفی علی فخری
■ سوالات اورجوابات (5)
■ ذاکرحسین ثاقب ڈوروی (5)
■ ھیئت التحریر (14)
■ سید شہوار نقوی (3)
■ اصغر اعجاز قائمی (1)
■ سیدجمال عباس نقوی (1)
■ سیدسجاد حسین رضوی (2)
■ سیدحسن عباس فطرت (2)
■ میر انیس (1)
■ سیدسجاد ناصر سعید عبقاتی (2)
■ سیداطہرحسین رضوی (1)
■ سیدمبین حیدر رضوی (1)
■ معجز جلالپوری (2)
■ سیدمہدی حسن کاظمی (1)
■ ابو جعفر نقوی (1)
■ سرکارمحمد۔قم (1)
■ اقبال حیدرحیدری (1)
■ سیدمجتبیٰ قاسم نقوی بجنوری (1)
■ سید نجیب الحسن زیدی (1)
■ علامہ جوادی کلیم الہ آبادی (2)
■ سید کوثرمجتبیٰ نقوی (2)
■ ذیشان حیدر (2)
■ علامہ علی نقی النقوی (1)
■ ڈاکٹرسیدسلمان علی رضوی (1)
■ سید گلزار حیدر رضوی (1)
■ سیدمحمدمقتدی رضوی چھولسی (1)
■ یاوری سرسوی (1)
■ فدا حسین عابدی (3)
■ غلام عباس رئیسی (1)
■ محمد یعقوب بشوی (1)
■ سید ریاض حسین اختر (1)
■ اختر حسین نسیم (1)
■ محمدی ری شہری (1)
■ مرتضیٰ حسین مطہری (3)
■ فدا علی حلیمی (2)
■ نثارحسین عاملی برسیلی (1)
■ آیت اللہ محمد مہدی آصفی (3)
■ محمد سجاد شاکری (3)
■ استاد محمد محمدی اشتہاردی (1)
■ پروفیسرمحمدعثمان صالح (1)
■ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری (1)
■ شیخ ناصر مکارم شیرازی (1)
■ جواہرعلی اینگوتی (1)
■ سید توقیر عباس کاظمی (3)
■ اشرف حسین (1)
■ محمدعادل (2)
■ محمد عباس جعفری (1)
■ فدا حسین حلیمی (1)
■ سکندر علی بہشتی (1)
■ خادم حسین جاوید (1)
■ محمد عباس ہاشمی (1)
■ علی سردار (1)
■ محمد علی جوہری (2)
■ نثار حسین یزدانی (1)
■ سید محمود کاظمی (1)
■ محمدکاظم روحانی (1)
■ غلام محمدمحمدی (1)
■ محمدعلی صابری (2)
■ عرفان حیدر (1)
■ غلام مہدی حکیمی (1)
■ منظورحسین برسیلی (1)
■ ملک جرار عباس یزدانی (2)
■ عظمت علی (1)
■ اکبر حسین مخلصی (1)

جدیدترین مقالات

اتفاقی مقالات

زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں

دماغی موت کے حامل افراد کے اعضاء کی پیو ند کاری.مجلہ عشاق اہل بیت9۔ربیع الثانی 1434ھ

دماغی موت کے حامل افراد کے اعضاء کی پیو ند کاری(١)

آیت اللہ محمد مہدی آصفی

مترجم : سیدحسنین عباس گردیزی

اعضا ء کی پیوند کاری کی تین صورتیں قابل تصور ہیں
پہلی صورت :
زندہ انسان کے عضو کو ایسے بیمار کو لگانا جسے بچانا واجب ہے اس طرح کہ عضو عطیہ کرنے والے شخص کی جان کو کوئی خطرہ لا حق نہ ہو ،مثلا ایسے بیمار جس کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں،کو گردہ عطیہ کرنا کیونکہ بہت سے میڈیکل کے تجربات نے ثابت کر دیا ہے کہ ایک گردے سے بھی زندہ رہا جا سکتا ہے ۔فقہ کی نظر میں اور میڈیکل کے اصولو ں کے اعتبار سے یہ صورت جائز ہے ۔
دوسری صورت :
ایسے اعضاء کی پیو ند کاری جن سے انسان کی زندگی وابستہ ہے اور دینے والا مو ت سے دو چار ہو سکتا ہے جیسے دِل،جگر اور پھیپھڑے وغیرہ شرعی اور میڈیکل کے اصولوں کے لحاظ سے یہ صورت ممنوع ہے اور کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے ۔
تیسری صورت:
مردہ انسان کے عضو کی پیوند کا ری اس عضو کے مر نے سے پہلے خود اس کی دو صورتیں ہیں ،دل کا دورہ پڑنے کے بعد اور سکتے (دماغ کی موت)کے بعد (
BrainDeath)دِل کے دورہ کی حالت میں جدید میڈیکل سائنس نے ثابت کیا ہے کہ دورے کے وقت انسان کے باقی اعضا یکدم نہیں مرجاتے بلکہ اس موقعہ پر وہ زندہ ہو تے ہیں،کیونکہ ایک عضو اور دوسرے عضو کے درمیان تھوڑا فاصلہ ہو تا ہے اور بعض اعضاء میں چند منٹوں کا بھی فاصلہ ہو تا ہے ۔
دِل کے دورے کی حالت میں مردے کے عضو کو بیمار تک منتقل کرنے کے لیے یہ سنہری موقعہ ہو تا ہے ،لیکن یہ فرصت اتنی کم ہو تی ہے کہ سرجن ڈاکٹرز مطلوبہ عضو کو میت سے جدا کر کے بیمار تک منتقل نہیں کر سکتے مگر شاذ و نادر مواقع پرلیکن دماغی موت کی حالت میں ڈاکٹرحضرات مریض کے دل کی حرکت اور دیگر اعضا ء کو زندہ رکھ سکتے ہیں ۔
دماغی موت(
Brain Death)سے ہماری مراد وہ حالت ہے جس میں دماغ مکمل طورپر متاثر ہو تا ہے مریض میں ادراک، احساس اور حرکت کا واپس آنا میڈیکل کی روسے محال ہو تا ہے۔ایسی حالت میں دِل طبیعی طور پر جدید میڈیکل کے آلا ت اور مشینری کے ذریعے خون کو پمپ کر تا رہتا ہے اور دورانِ خون جاری رہتا ہے اور یوں اندرونی اوربیرونی اعضاء معمول کے مطابق زندہ رہتے ہیں ۔اس صورت میں آپریشن کے لیے کافی وقت ہو تا ہے ۔اور کامیابی کے ساتھ عطیہ کنندہ کے عضو کو مریض کے جسم کے ساتھ پیوند (Transplant)کیا جا سکتا ہے ۔
اس صورتحال میں فقہا کی طرف سے اور میڈیکل کے اصولو ں کے اعتبار سے بہت زیادہ اعتراضات کیے گئے ہیں اس صورت پر بہت سے سوالا ت اٹھائے گئے ہیں جن کا جواب فقہا کو دینا چاہیے اور ان مسائل کو حل کر نا چاہیے ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ شرعی اعتبار سے دماغی موت سے موت کا ثابت ہو نا واضح نہیں ہے ۔
اگر ڈاکٹرز کی جدید آرا ء سے ثابت ہو جا ئے کہ دماغی موت کی حالت میں انسان حقیقتاًمرجاتا ہے اگر چہ اس کا دل مشینری کی مدد سے یا اس کے بغیر کام کر رہا ہو تو ایسی صورت میں سرجن اس کے عضو کو ضرورت مند مریض کے بدن میں منتقل کر سکتا ہے ۔
یہاں پر ایک اور مسئلہ پیش آتا ہے اور وہ میت کا مُثلہ کرنے کی حرمت ہے جیسا کہ زندہ کا مُثلہ کرنا حرام ہے فقہی اعتبار سے یہ کو ئی مشکل مسئلہ نہیں ہے ۔کیونکہ اس قسم کے موارد میں مُثلہ کے حرام ہو نے کی با ت کمزور پڑجاتی ہے البتہ اگر ہم سابقہ ادوار کے ڈاکٹروں کی بات تسلیم کر لیں کہ موت صرف حرکت قلب کے بند ہو نے سے واقع ہو تی ہے تو اس صورت میں دماغی موت کے مریض کے اصلی اور حیاتی اعضاء جیسے دل اورپھیپھڑے ،دوسرے ضرورت مند مریض میں منتقل کر نا جا ئز نہیں ہو گا کیونکہ اس نظریے کے مطابق دماغی موت کامریض زندہ ہے اور اس کے اصلی عضو کاانتقال اس کی مو ت ہے اور یہ بات شرعی لحاظ سے حرام ہے کیونکہ ایک مریض کی جان بچانے کے لیے دوسرے زندہ انسان کو ہلاک نہیں کیا جا سکتا ۔
یہ مسئلہ نفی اور اثبات کے لحاظ سے زندگی کے آخری لمحے کی تعیین پر منحصر ہے اگر ہم انسان کی موت،دماغ کے تباہ ہو نے اور کام نہ کرنے کو قرار دیں تو پھر اس کا عضو جد ا کرنا جائز ہو گا او ر اگر ہم موت کو حرکت قلب کو بند ہو نا ، قراردیں تو پھر عضو کو جدا کرنا جائز نہیں ہو گا ۔اس مقالے میں اس سوال کا اساسی جواب دیا جا ئے گا اور اس کے ساتھ مربوط دیگر مسائل کو بھی بیان کیا جا ئے گا ۔
اعضا ء کی پیو ند کاری کے بارے میں فقہی سوالا ت
١۔ کیا انسان پر واجب ہے کہ وہ اپنے اعضا ء ایسے مریض کو عطیہ کر کے اس کی مدد کر ئے جس کے اندرونی اعضاء مثلا ً دِل،جگر اور پھیپھٹر ے یا ظاہری اعضاء ناکارہ ہو چکے ہوں ،قطع نظر اس کے کہ اپنے نفس کو ضرر پہنچانے کے حکم کا تقاضا کیا ہو ؟
مثال کے طور پر ایک انسان جو اپنا ایک گردہ کسی کو عطیہ دے سکتا ہے کیا اس پر واجب ہے کہ وہ اپناگردہ ایسے مریض کودے دے جس کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہوں؟
٢۔ بنا بر فرض اگر ایسا کرنا ضرر اور نقصان کو دور کرنے یا روکنے کے ذریعے دوسروں کی جان بچانا واجب ہو تو کیا عطیہ دینے والے کو خود نقصان اور ضرر پہنچنے کی صورت میں یہ حکم ساقط ہوجائے گا ؟
مثلاً جس مریض کے دونو ں گردے فیل ہو چکے ہیں اُسے اپنا گردہ عطا کرنے والے شخص کی جان کو یقینا خطرہ لا حق ہو سکتا ہو،کیونکہ اس مفروضہ صورت میں پہلا حکم یعنی مریض کی جان بچانا ایک مُضر حکم ہے ۔جو اپنے ہمراہ جان بچانے والے کے لیے ضرر اور نقصان کاحکم رکھتا ہے اور قاعدہ ''لاضرر'' کی بنا پر جان بچانے کا واجب ہو نا برطرف ہو جاتا ہے یہاں پرفقہی طور پر کو نسا راہ حل ہے کہ عطیہ دینے والے کی جان کو خطرہ ہو نے کے با وجود مریض کی جان بچانا اُسی طرح واجب ہو ؟
٣۔ بنا برفرض دوسروں سے ضرر کودور کرنا اُسی طرح واجب ہو اور 'لا ضرر'والی حدیث بھی اس واجب کو ساقط نہ کر ئے تو اس صورت میں ضرر اور خطرے سے دوسروں کو بچانے کے وجوب اور اپنے آپ کو ضرر پہنچانے کی حرمت میں تزاحم اور ٹکراو پیدا ہو جائے گا ،کیونکہ مریض اس وقت اپنی جان بچاپائے گا جب عطیہ دینے والااپنے اعضا ء کو اُسے عطیہ دے دے اس حالت میں دوسروں کو بچانے کے وجوب اور اپنے آپ کو ضرر پہنچانے کی حرمت ایک ساتھ جمع ہو جائیں گے ،جبکہ مکلف کے لیے ان دونوں کو جمع کرنا ممکن نہیں ہے (مکلف ایک ہی وقت میں دونوں پر عمل نہیں کر سکتا )دوسری طرف چونکہ ان دوحکموں (مریض کی جان بچانے کا واجب ہو نا اور خود کو نقصان پہنچانے کا حرام ہو نا ) کے درمیان تشریع اور صدور کے مقام پر کوئی منافات نہیں ہے بلکہ عمل کے مقام پر ان کے درمیان تضادموجود ہے اس لیے یہاں پرتزاحم ہے نہ کہ تعارض سوال یہ ہے کہ یہاں پرتزاحم کا مسئلہ کیسے حل ہو گا ؟
یہ تھے زندہ کے زندہ یا مردہ کے اعضاء کی زندہ انسان کے بد ن میں پیو ند کاری کے متعلق تین فقہی سوال 
پہلے سوال کا جواب :۔
اس با ت میں
 کو ئی شک و تردید نہیں ہے کہ نفس محترم کو موت سے نجات دینا واجب ہے اور ہر چیز سے پہلے اس کی دلیل حکم عقل ہے کیونکہ عقل کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ نفس محترم کی جان کی حفاظت ضروری ہے ۔اور یہ عقل عملی کا فیصلہ ہے اور عقل نظری کے اس حکم کہ عقل کے حکم اور شریعت کے حکم میں ملازمہ ہے ،کو ساتھ ملانے سے عقلی دلیل کی بنیاد پر نفس محترم کی حفاظت اور اس کی جان بچانا کا واجب ہونا شرعاً بھی ثابت ہو جا تا ہے ۔
وہ روایات جو مومنین کے ایک دوسرے پر حقوق کے سلسلے میں بیان ہو ئی ہیں جو تواتر معنوی کی حد تک ہیں ، ان سے مسلمان کی جان کی حفاظت بڑی صراحت سے ثابت ہو تی ہے جیسا کہ خود ''مومن '' اور ''مسلمان '' کے الفاظ سے بھی سمجھا جا سکتا ہے اور یہ با ت بعید بھی نہیں ہے ۔
اسی طرح اطمینان سے کہا جا سکتا ہے اس مسئلہ میں قدیم الا یام سے مسلمان کی جان کی حفاظت کے وجوب پر سیرت متشرعہ رہی ہے نہ کہ صرف رحجان ، یہ سیرت معصومین کے زمانے سے متصل ہے اور احادیث معصومین کو ظاہر کر تی ہے ۔
دوسرے سوال کا جواب :۔
یہ مسئلہ اپنے آپ کو ضرر پہنچانے یا دوسرے کو ضرر پہنچنے سے مربوط ہے ۔اس مسئلہ کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں 
گفتگو کامحورتیسری صورت ہے پہلی دو صورتوں کا مورد نظر بحث سے بلا واسطہ کو ئی تعلق نہیں ہے ۔
پہلی صورت:۔
ضرراورخطرہ دو افراد میں سے ایک کو لا حق ہے اور دونوں مساوی اور یکساں  طور پر اس کا شکار ہو سکتے ہیں ان میں سے ہر ایک اگر اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہے تو وہ حتماً دوسرے کو ضرر پہنچائے گا ۔
دوسری صورت :۔
ابتدا ء میں ضرر اور خطرہ خود اُسی شخص کو لا حق ہے وہ اسے کسی دوسرے کی طرف منتقل کرنے کے درپے ہے مثلاً،سیلاب جو اس کے گھر کی طرف آنے والاتھا وہ اس کا رخ کسی دوسرے کے گھر کی طرف موڑ دے ۔
تیسر ی صورت:
ابتدا ء میں ضرر اور خطرہ دوسرے کو لا حق ہو لیکن اُسے اس سے ٹال کر اور دور کر کے اپنے سر لیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر آغاز میں سیلاب دوسرے کے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا ،کیا یہاں پر واجب ہے کہ سیلاب کا رخ اپنے گھر کی طرف موڑ کر دوسرے سے خطرے کو دور کیا جا ئے ؟اور اسی طرح یہ بھی کہ کوئی ظالم اُسے مجبور کر ےکہ وہ دوسرے شخص کو نقصان پہنچائے اور ظالم اُسے دھمکی دے کہ اگر تو نے اُسے نقصان نہ پہنچایا تو خود تمہیں نقصان پہنچاؤں گا مثلا  وہ دوسرے کے اموال کو لوٹنے کے لیے مجبور کر ے اور دھمکی دے کہ تونے اس حکم کی تعمیل نہ کی تو پھر تیرا مال لوٹ لیا جائے گا کیا اس مقام پر اس مجبور شخص کے لیے دوسرے کو نقصان اور ضرر پہنچانا جائز ہے اگر چہ خود اُسے پہنچنے والا نقصان دوسرے کے نقصان سے کمتر ہو ؟جیسا کہ شیخ انصاری اور فقہا کی زیادہ تعداد کا یہی قول ہے ،
یا یہ کہ دو نقصانا ت اور ضر ر کا آپس میں موزانہ کرنا اور چھوٹے ضرر کو اختیار کرنا ضروری اور لا زم ہے ؟
جیسا کہ بعض محققین کا یہ نظریہ ہے ۔
ہمارا مورد بحث مسئلہ اسی قسم کا ہے کیونکہ ابتدائی طور پر بیمار شخص کو خطرہ اورضرر لاحق ہے ،لیکن زندہ مکلف اس کی ضرورت کے مطابق اپنا عضو عطیہ دے کر اس کی جان بچا سکتا ہے مکلف اپنی زندگی میں اپنے اختیار سے اور مرنے کے بعد اپنے ورثاء کی اجازت سے عضو عطیہ کر ئے گا ۔اس مسئلے کی وضاحت بعد میں آئے گی ۔
شیخ انصاری کا نظریہ :
وہ لکھتے ہیں :سوا ل یہ ہے کہ کیا دوسروں کو ضرر پہنچانے پر جبر و اکراہ سے ہی ان کے اموال اور عزت مباح ہو جائے گی اگر چہ دوسروں کا نقصان اپنے کو نقصان پہنچنے سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو یا یہ کہ دونوں نقصانات کا آپس میں موازنہ کیا جا ئے اور جو نقصان کمتر ہو اس حکم کو اختیار کیا جا ئے ؟اس میں دو قول ہیں
قول اول کی دلیل:
اکراہ وجبر کی ادلہ مطلق اور بغیر کسی قید و شرط کے ہیں اور قاعدہ 
''الضرورات تبیح المخطورات''( یعنی ضرورت کے وقت ممنوعات جائز ہو جاتی ہیں)بھی اس مقام پر لا گو ہو تا ہے ۔
قول دوم کی دلیل :
جبر واکرہ کی ادلہ سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ یہ ضرر اور نقصان کو دور کرنے کے لیے یہ احکام صادر ہو ئے ہیں او ر اپنے آپ سے ضرر اورخطرے کو دور کرنے کے لیے دوسروں کو نقصان اورخطرے میں ڈالنا جائز نہیں ہے حتی اس صورت میں بھی جائز نہیں ہے جب دوسروں کو نقصان اپنے آپ کے نقصان سے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو چہ جائیکہ اپنے آپ کو نقصان دوسروں کے نقصان سے کمتر ہو ۔
پہلا قول اقویٰ ہے کیونکہ جبرو اکراہ کی نفی کی دلیل عام ہے اور تمام محرمات کو شامل ہے دوسروں کوضررپہنچانا بھی ان محرمات میں سے ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کے قتل کی حد تک نہ پہنچنے ۔
مطلب کی وضاحت :
جب کسی شخص کو ضرر لا حق ہو (یعنی مقتضی موجود ہے )ضروری نہیں ہے کہ دوسرے کو ضرر پہنچا کر اس سے ضرر کو دور کیا جا ئے ،اس بنا پر اگر کسی کو دوسرے کے مال لوٹنے پر جبراً مأ مور کیا جا ئے تو اس پر واجب نہیں ہے کہ وہ دوسرے سے ضرر کو دور کر نے کے لیے ما ل نہ لو ٹ کر اپنا نقصان برداشت کر ئے ۔ 
شیخ انصاری نے اپنی کتاب مکاسب کے ملحقات میں اپنے ایک مقالے بعنوان '' قاعدہ نفی الضرر'' میں اسی رائے کو انتخاب کیا ہے ،اس میں وہ کہتے ہیں :
اس قاعدہ کی رُوسے کسی کے لیے نہ تو یہ جا ئز ہے کہ وہ اپنے آپ کو ضرر اور خطرے سے بچانے کے لیے دوسرے کو ضرر پہنچائے یا اُسے خطرے میں ڈال دے اور نہ ہی کسی کے لیے یہ ضروری ہے کہ دوسروں کوضرر سے بچانے کے لیے اپنے آپ کوخطرے میں ڈال دے یا خود نقصان اٹھائے ۔
دوسرے حکم کے مطابق جبر واکراہ یا تقیہ کی حالت میں دوسرے کو ضرر یا نقصان پہنچانا جائز ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک ظالم نے کسی شخص کو حکم دیا ہے کہ وہ دوسرے کو نقصان پہنچائے اوریہ کہا ہے کہ اگر تو نے یہ کام انجام نہ دیا تو تجھے نقصان پہنچے گا اس صورت میں جسے حکم دیا گیا ہے وہ دوسرے شخص کو ضرر پہنچا سکتا ہے اور دوسرے کو نقصان سے بچا کر خود نقصان برداشت کرنا واجب نہیں ۔

محقق نائینی کا نظریہ :
محقق نائینی نے ''قاعدہ لاضرر'' کے قابل توجہ نکات میں سے چھٹے نکتے میں مذکورہ نظریے کو قبول کیا ہے ،
وہ لکھتے ہیں :
اس حدیث کے مطابق جومنت اوراحسان کے مقام پر صادر ہو ئی ہے ،انسان پر واجب نہیں ہے کہ وہ دو سرے سے نقصان اورضرر کو برطرف کرنے کے لیے اُسے اپنے سر لے لے۔
اسی طرح دوسرے کے نقصان کو پورا کرنا بھی واجب نہیں ہے ،یعنی دوسرے سے ضرر کو دور کرنا واجب ہے لیکن اس کے نقصان کو خود برداشت کرنا واجب نہیں ہے ۔

امام خمینی کا نظریہ:
اصول فقہ مں قاعدہ لاضرہ کی بحث میں اما م خمینی نے اسی نظریے کو اختیار کیا ہے لیکن اس کی جو تو جیہہ انہوں نے بیان کی ہے وہ شیخ انصاری اور محقق نائینی کی تو جیہہ سے مختلف ہے ،وہ لکھتے ہیں:
دوسروں کو ضرر پہنچانا ممنوع ہے خواہ اسباب فراہم کرنے کی شکل میں ہو یا بذات خود ایسا کیا جا ئے ،لیکن حدیث ضرر دوسروں سے ضرر کو دور کرنے کے مسئلہ کو شامل نہیں ہے اور یہ نکتہ بہت واضح ہے ،اس بنا پر اگر کسی دوسرے کے گھر کو خطرہ لا حق ہو تو انسان پر اُس خطرے کو دور کرنا واجب نہیں ہے اور یہ بھی واجب نہیں ہے کہ سیلاب کا رخ اپنے گھر کی طرف کر کے ہمسایہ کو خطرے سے محفوظ کیا جا ئے ۔

مشہور نظریے کاخلاصہ:
دونوں مسئلوں میں فقہا کی مشہور رائے کو دو قول کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے ۔
١۔دوسروں سے ضرر کو دو رکرنا اور بچانا واجب نہیں ہے یہ قول امام خمینی کے کلام سے استفادہ ہو تا ہے ۔
٢۔قاعدہ لا ضرر جو حکم ضرری کو برطرف کر تا ہے ،اس کی دلیل کے ذریعے دوسرے سے ضرر کو دور کرنے کا وجوب ختم ہو جاتا ہے اسی طرح دوسرے کو ضرر سے بچانے کے لیے اپنے آپ کو نقصان میں ڈالنے کا واجب ہو نا بھی ختم ہو جاتا ہے ۔
اسی دلیل کی وجہ سے شیخ انصاری نے مکاسب میں 
''نفي الضرر'' کے مقالے میں دوسرے کو ضرر پہنچانے کے جواز کو قبول کیا ہے اس صورت میں جب ظالم شخص اُسے ایسا کرنے پر مجبور کرے اگر چہ جس ضرر کی اُسے دھمکی دی گئی ہے وہ اس ضر ر سے کہیں کم ہے جس کے انجام دینے پر اُسے مجبور کیا گیا ہے ہو چہ جائیکہ وہ ضرر جس کی دھمکی دی گئی ہے وہ اس سے کئی گنا زیادہ ہو جس پر اُسے جبر واکراہ کیا گیا ہو ،مگر قتل میں نہیں کیونکہ حدیث ہے ''لا تقیة في الدم'' 
ہمار ا نکتہ نظر:
یہ نظریہ کمزور اور قابل اعتراض ہے ہم اپنی رائے کو چند نکات میں بیان کر تے ہیں :
١۔ بلا شک و تروید مسلمانوں کی جان کی حفاظت ،بھاری مالی نقصانات سے بچانا اورمشکلات میں گھرے لوگوں کی مدد کرنا واجب ہے اگرچہ یہ نقصان ہلاکت کی حد تک نہ بھی پہنچے(پھر بھی نقصان سے بچانا واجب ہے ) اس بارے میں روایات بکثرت موجود ہیں اوراحادیث کی کتب میں مختلف عناوین کے تحت مختلف ابواب میں متفرق انداز میں پائی جا تی ہیں،جیسے مسلمانوں کی فریاد رسی اور مصیبت ومشکلات میں مسلمانوں کی مدد کرنے کا واجب ہو نا البتہ جب نقصان بہت بڑا ہو نیزانہیں مختلف خطرات سے بچانے کا وجوب خواہ وہ خطرا ت اورنقصانات ایک فرد کولاحق ہوں یا کسی گروہ کو ،ان نصوص کا وجوب پر دلالت کرنا انتہائی واضح ہے ۔

جیسا کہ معصوم کایہ فرمان!''من سمع رجلاً ینادي یا للمسلمین فلم یجبہ فلیس بمسلم''[1]''جو شخص کسی مسلمان کی فریاد کوسُنے اور اس کی مدد نہ کر ے وہ مسلمان نہیں ہے ''
دوسرے مسلمان بھائی یا مسلمانوں کے کسی گروہ کو طاقت و توانائی رکھنے کے باوجود خطرے سے نہ بچانا اور ضرر اور نقصان کو اس سے دور نہ کر نے والے شخص سے اسلام کی نفی کرنا اس کے وجوب کو واضح طور پر ثابت کر تا ہے 
کیا کوئی شخص اس بات کے واجب ہونے میں شک کرسکتا ہے کہ اگر کو ئی نابینا کنویں میں گرنے والا ہو اُسے متوجہ کرنا ضروری  ہے اگرچہ کنویں میں گرنے سے اس کی موت واقع نہ ہو لیکن جسمانی طورپر اُسے بہت زیادہ نقصان پہنچنے ۔
ہاں اگر ضرر ونقصان بڑا نہ ہو یا خطرے کا احتمال قابل اعتنا نہ ہو تو ایسی صورت میں ضرر کو دور کرنا واجب نہیں ہے ۔

2 - اس مقام پر دوسرے کوضر ر سے بچانے کے واجب ہونے کا حکم،ایک ضرری حکم ہے ، کیونکہ اس کا لازمہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ضرر پہنچائے ،چونکہ پہلی مثال میں فرض یہ ہے کہ سیلاب کا رخ دوسرے کے گھر کی طرف سے موڑکر اپنی طرف کرنے سے خود کوضرر پہنچتا ہے،دوسری مثال میں فرض یہ ہے کہ حاکم نے جس شخص کو دوسرے کونقصان پہنچانے کا حکم دیا ہے اگر وہ اس کے حکم سے سر پیچی کرئے تو خود اسے نقصان پہنچے گا ۔
اس صورت میں دوسرے کو ضرر سے بچانے کے حکم کا واجب ہو نا ،ایک مضر حکم ہے جو قاعدہ ''لاضرر'' کی بنا پر برطرف ہو جا تا ہے پس نہ تو دوسرے سے ضرر اور نقصان کو دور کرنا واجب ہے اور نہ اُسے بچانا واجب ہے ۔

3- چونکہ حدیث ''لاضرر'' منت و احسان کے طور پر بیان ہو ئی ہے لہذا جہاں بھی حکم کی برطرفی منت واحسان نہ ہو وہاں قاعدہ لاضرہ جاری نہیں ہو گا اور اس حدیث میں منت واحسان کی مجموعی طور پر دو طرف ہیں نہ ایک طرف زیر بحث مسئلہ(یعنی دوسرے کوضرر سے بچانے کے حکم وجوب کی برطرفی )میں صرف نجات دینے والے جو کہ دوسرے کوضرر سے بچانے کا ذمہ دار ہے ،کی طرف منت و احسان ہے لیکن نجات دینے والے پر دفع ضرر از غیر، کے حکم وجوب کو ہٹانے کے ذریعے احسان کرنا ،غیر کو ضرر پہنچانے کا موجب ہے ۔
اور یہ بات منت و احسان کرنے کے برخلاف ہے کیونکہ حدیث لا ضرر میں جس امتنان کی بات ہے وہ دو میں سے کسی ایک طرف سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ منت و احسان تمام امت پر ہے جب کہ غیر کے ضرر و نقصان سے بچانے کے واجب نہ ہونے میں اور اس حکم کے ساقط ہو نے میں کو نسا احسان ہے ؟
جبکہ غیر کا نقصان اورضرر نجات دینے والے کے نقصان سے کئی گنا بھاری اورزیادہ ہو ۔
بنابرقول شیخ انصاری وہ ضرر اور نقصان جس کا ظالم نے جبراً حکم دیا ہے اگر دوسرے کے گھر اورتمام مال واسباب کولوٹے کا ہو اور ظالم کے حکم عدولی کی صورت میں جو نقصان پہنچے وہ ظالم کی طرف سے صرف ڈانٹ ڈپٹ کی حد تک ہو تو اس حالت میں وہ شخص دوسرے کو ضرر او رنقصان پہنچا سکتا ہے،اگر ہم شیخ کے اس قول کو مان لیں تو کیا امت پرمنت و احسان اس طرح کی چیز کا تقاضا کر تا ہے ؟

4 - اس بات کایہ مطلب بھی نہیں کہ اس رائے سے پھر جائیں اور اس رائے کو قبول کر لیں جس کاذکر شیخ نے اپنی کتاب مکاسب میں کیا ہے لیکن اس کی تائید نہیں کی یعنی زیادہ ضررو نقصان سے اجتناب اور تھوڑے نقصان کاارتکاب،بلکہ درست یہ ہے کہ ہم منت واحسان کو معیار قرار دیں پس جہاں منت واحسان کا تقاضا ہو کہ دوسرے کوضرر سے بچانے کے واجب ہونے کوہٹا دیا جا ئے وہاں یہ حکم ختم ہو جائے جہاں اس کا تقاضا نہ ہو وہاں یہ حکم باقی رہے ،کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ منت واحسان دونوں جوانب کو ایک ساتھ شامل ہے نہ بالخصوص ایک طرف کو اور یہ ایک عام فہم بات ہے جو دقیق عقلی پیمانوں پر پوری نہیں اترتی ۔
بنابرایں اس مثال میں شیخ انصاری نے ذکر کیا ہے ،اگر ظالم کی حکم عدولی کی صورت میں ڈانٹ پٹ اور سخت الفاظ کا اُسے سامنا کر نا پڑے جو اس کی طرح کے افراد کے لیے قابل برداشت ہیں،اس صورت میں غیر سے ضر ر کو دور کرنے کے واجب ہو نے کوختم کرنے میں قطعاً کسی قسم کا احسان موجود نہیں ہے بلکہ اس حکم کو ختم کرنا خلاف احسان ہے لہذا حدیث لاضرر اس کو شامل نہیں ہو گی اور اس حدیث کی روسے ضرر کو دور کرنے کا وجو ب اس سے ساقط نہیں ہو گا ۔
البتہ اگر یہ فرض کیا جا ئے گا ما مور کو لا حق ہو نے والاضرر و نقصان ،دوسرے شخص کے ضرر ونقصان کے مساوی یا اس سے کچھ کم ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہاں منت و احسان کا تقاضا بنتا ہے کہ دوسرے سے ضرر کو دور کرنے کے واجب حکم کو بر طرف کیا جا ئے کیونکہ اس کا نیتجہ پہلے شخص (مامور)کے نقصان کی صورت میں نکلتاہے ۔
اسی طرح کی اور مثالوں میں بھی قاعدہ لاضرر کے جاری ہونے یا نہ ہونے کا معیا رمنت واحسان کا پا یا جانا یا اس کاعدم ہے ،کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ منت واحسان دونوں اطراف کو شامل ہے نہ کہ صرف ایک جانب کو،اور منت واحسان کوئی عقلی مسئلہ نہیں جو تھوڑی سی کمی کی صورت میں دقیق حساب کیا جائے ۔
٥ -  فرض کیا کہ حدیث ''لاضرر'' غیر کو بچانے اور اس سے ضرر کو دور کرنے کے وجوب کو ساقط کر دیتی ہے بلا شک و شبہ صرف و جوب ختم ہو تا ہے جب کہ عمل کا پسندید ہ ہو نا اپنی جگہ پر باقی ہے ،کیونکہ منت واحسان صرف حکم کے لازمی ہونے کو برطرف کر تا ہے نہ کہ عمل کے پسندیدہ ہو نے کو اس کی وجہ یہ ہے کہ امتنان فقط حکم کے لازمی ہونے کودور کر تا ہے نہ کہ اس کے پسند ید ہ ہونے کو اس کی وجہ یہ ہے کہ امتنان فقط حکم کے لازمی ہونے کو دور کرتا ہے اس کے پسند ید ہ اور مستحب ہو نے کو برطرف نہیں کرتا ۔
مذکورہ نکات کی روشنی میں تیسرے سوال کا جواب یوں ہو گا ،اگر دوسرے شخص سے ضرر کو دور کرنا یا اُسے ضرر سے بچانا واجب ہوتو یہ وجوب حدیث ''لاضرر ولاضرار'' کے ذریعے برطرف نہیں ہو گا ،اس طرح یہ مسئلہ قطعی طورپر باب تزاحم میں سے شمار ہوگا ،کیونکہ ایک طرف تو مفروضہ صورت میں دوسرے کو ضرر اورنقصان سے بچانے کالازمی نیتجہ اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور دوسری طرف اپنے آپ کو نقصان پہنچانا حرام ہے ،پس مریض کی جان بچانے کے واجب ہونے اور اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے حرام ہونے میں تزاحم اورٹکراو واقع ہوجائے گا۔
تزاحم کے اعتبار سے مسئلہ کی مختلف صورتیں:۔
تزاحم کے لحاظ سے ایک انسان کے عضو کو دوسرے انسان کے بدن کے ساتھ جوڑنے کے لیے قطع کرنے کی چار صورتیں قابل تصور ہیں ،تین صورتیں مریض کے بدن سے جوڑنے کے لے زندہ انسان کے عضو کو کاٹنے کے متعلق ہیں اور ایک صورت بیمار کے بدن کے لیے میت کے عضو کو جدا کرنے کے بارے میں ہے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ بیمار کے بدن سے پیوند کاری کرنے کے لیے سرجن یا تو زندہ انسان سے عضو جدا کر تا ہے یا پھر مردہ انسان سے جدا کرتا ہے ،اول الذکر میں عطیہ دینے والے کی اس سے موت واقع ہو جاتی ہے یا موت واقع نہیں ہوتی ،
ثانی الذکر میں عضو کی پیوند کاری مریض کی جان بچانے کے لیے ضروری ہے یاضروری نہیں ، اگر ضروری ہے تو دوسرے شخص پر اس کی جان بچانے کے لیے عضو کاعطیہ دینا واجب ہے، اور اگر ضروری نہیں ہے تو عطیہ دینے والے پربھی عضو عطیہ کرنا واجب نہیں،اس طرح چار صورتیں بنتی ہیں۔
پہلی صورت:۔
زندہ انسان سے عضو جدا کیاجا تا ہے اور اس سے اس کی موت بھی واقع نہیں ہو تی البتہ عضو کی پیوند کاری ، بیمار کی زندگی کے لیے لازمی بھی نہیں ہے ،مثلاً عطیہ کر نے والے کی ٹانگ کو ایسے بیمار کے بدن کولگانے کے لیے جدا کرنا ،جس کی پنڈلی کٹ چکی ہے۔
دوسری صورت:۔
یہ بھی پہلی صورت ہے اس فرق کے ساتھ کہ عضو کی پیوند کاری مریض کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے ، جیسا کہ ایسے مریض کی جان بچانے کے لیے گردے کی پیوند کاری ،جس کی گردے دے کر جان بچانا واجب ہے ۔
تیسری صورت :۔
عطیہ دینے والے سے اعضا ء کاجدا کرنا اس کی موت کا سبب ہے لیکن اس عضو کی بیما رکے بدن سے پیوند کاری اس کی موت سے نجات کاموجب ہے ،جیسے زندہ انسان کے دل کو نکالنا اور اس مریض کولگا دینا جسے دِل نہ لگا یا جائے تو وہ مر جائے گا ۔
چوتھی صورت:۔
مردہ انسان کے عضو کو اس مریض کے بدن کے ساتھ پیوند کاری کر نے کے لیے جداکرنا جسے عضو کی پیوندکاری کرنا واجب ہے ۔
اب ان چار صورتوں کے شرعی حکم کی تفصیل بیان کی جا تی ہے ۔
پہلی صورت:۔
عضو کو جدا کرنے کی اجازت کی صورت میں عطیہ کرنے والے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور دوسری طرف یہ عضو بیمار کے لیے بہت زیادہ ضروری بھی نہیں ہے اور اس کے نہ ہو نے کی حالت میں اسکی جان کو کوئی خطرہ بھی لاحق نہیں ہے ۔
یہ صورت قطعی طور پرحرام ہے ،کیونکہ عقلی اور شرعی ہر لحاظ سے عطیہ کرنے والے کا اپنے آپ کو نقصان پہنچانا ، حرام ہے بغیر اس کے کہ مدنظر عضو کی بیمار کی زندگی کے لیے چنداں ضرورت ہے ۔
اس کی مثال یہ ہے کہ عطیہ دینے والا شخص سرجن کواجازت دے کہ وہ اسکا ہا تھ یا پاؤں کاٹ کر دوسرے کے بدن کے ساتھ لگادے یہاں پر عطیہ دینے والے کے عضو ہاتھ یا پاؤں کودوسرے کے فائدہ کے لیے قطع کرنے سے نہی کی گئی ہے کیونکہ یہ عضو دوسرے شخص کے زندہ رہنے کے لیے ضروری نہیں ہے تااینکہ اس کی جان بچانا واجب ہو ۔
دوسری صورت:۔ 
سرجن کوعضو کے جدا کرنے کی اجازت دینے کی وجہ سے عطیہ دینے والے کو بہت بڑا نقصان ہو گا ،لیکن مریض کی زندگی بچانا بھی اُسی عضو پر منحصر ہے اس لیے عطیہ دینے والے پر عضو عطیہ کرکے اس مریض کی جان بچانا بھی واجب ہے ۔
مثال کے طور پر عطیہ دینے والا شخص سرجن ڈاکٹر کو اجازت دیتا ہے کہ اس کے دو گردوں میں سے ایک گردہ اس مریض میں پیوند کر دے جس کے دونوں گردے فیل ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ مرنے کے قریب ہے ،
ایسی صورت میں مسئلہ باب تزاحم کا ہو جاتا ہے کیونکہ اپنے آپ کونقصان پہنچانے سے اپنی اور بیمار کی جان بچانے کے وجوب میں تزاحم پیدا ہو جاتا ہے اور باب تزاحم کی روسے اہم کو غیر اہم پر ترجیح دی جا ئے گی اور بلا شک مسلما ن کی  جان بچانا ،اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی حرمت سے زیادہ اہم ہے۔[2]
بنابراین بیمارکی خاطراپنا ایک گروہ نکالنے کی اجازت دینا ،اپنے آپ کو ضرر پہنچانا ہے جو کہ حرام ہے،لیکن عضو دینا بیمار کو موت کے منہ سے بچا لینا ہے، اور یہ بھی واجب ہے ،یہ واجب کام اپنے آپ کو ضرر پہنچانے کی حرمت کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہے ،پس امر کو نہی پر ترجیح دی جائے گی اور اپنے آپ کو ضرر پہنچانے کا حرام ہو نا تزاحم کی وجہ سے ساقط ہو جائے گا اور نیتجہ کے طور پر مریض کی جان بچانے کا وجوب متعین ہو جا ئے گاچنانچہ جہاں بھی تزاحم ہو تا ہے یہی حکم جا ری ہو تا ہے ۔
تیسری صورت :
عضو کا جدا کرنا عطیہ دینے والے کی موت کا سبب بن جا تا ہے لیکن عضو کی مریض کے بدن سے پیوند کاری اس کی جان بچ جانے کا موجب بن جا تی ہے،مثال کے طور پر مکلف سرجن ڈاکٹر کو اجازت دے کر اس کا دِل نکال کر اس مریض کو لگا دے جس کی جان کو خطرہ لاحق ہے ۔
یہ صورت دوسری صورت کی طرح باب تزاحم میں شامل ہے اس فرق کے ساتھ کہ فقہی لحاظ سے بد یہی بات ہے کہ اپنے آپ کو ہلاک کرنے کی حرمت ،مریض کی جان بچانے سے زیادہ اہم ہے ۔
پس اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کی حرمت کو بیمار کی نجات کے وجوب پر فوقیت دی جائے گی اور جان بچانے کا واجب حکم موجودہ صورت میں ساقط ہو جائے گا لہذا مکلف دوسرے مریض کی جان بچانے کے لیے اپنے دِل کا عطیہ نہیں دے سکتا ،کیونکہ ایسا کام خود کشی کے مترادف ہے جوکہ بدیہی طور پر حرام ہے ۔[3]
چوتھی صورت:
مردہ بدن سے عضو کو کاٹ کر ایسے مریض کو لگایا جا ئے جس کی مددکرنا واجب ہے ،یہ مقالہ اس صورت کے حکم کو بیان کرنے کے لیے تحریر کیا گیا ہے ۔ اس کے جواز پر دواہم فقہی اعتراضات ہیں:
پہلا اعتراض:
میت کا مثلہ کرنے کی حرمت :
مردے کے اعضاء کو کاٹناحرام ہے،جس طرح زندہ مومن قابل احترام ہے اس طرح اس کا میت بھی محتر م ہے ، اس مطلب کے بارے میں متعدد احادیث صحیحہ نقل ہو ئی ہیں ،اُن میں چند یہ ہیں:
الف: عبد اللہ بن سنان :امام جعفر صادق(ع) نے اس شخص جس نے ایک مردے کا سرکاٹاتھا کے بارے میں فرمایا :
اسے دیت اد اکرنا پڑے گی ،کیونکہ اس کے مردے کا احترام زندہ کے احترام کی طرح ہے ۔[4]
ب: صحیحہ جمیل از امام صادق 
(ع):
میت کا سر کا ٹنا زندہ انسان کے سر کاٹنے سے بدتر ہے ۔
اس حدیث کو شیخ نے اپنی اسناد سے ابن ابی عمیر سے بیان کیا ہے ۔[5]
ج: صحیحہ صفوان از امام صادق 
(ع):
اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا کہ مومن کے لیے حسن ظن کے علاوہ کوئی اور گمان کیا جائے اور زندہ اور مردے کی ہڈی توڑنا ایک جیسا ہے۔[6]
یہ اعتراض زندہ انسان کے عضو مثلاً گردے کوناگریز حالت میں جدا کرنے کے اشکال سے بڑھ کر تو نہیں ، جب وہاں پر زندہ انسان دو متزاحم اور بیمارکی جان بچانے کے واجب ہونے کے حکموں میں سے اہم کو غیر اہم پر ترجیح دیتے ہو ئے بیمار کی جان بچانے کے لیے اپنے کسی عضو کوکاٹنے کی اجازت دے سکتا ہے تو اسی طرح وہ یہ بھی اجازت دے سکتا ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اعضا ء میں سے کسی عضو کوکاٹ کرکسی مریض کے جسم میں پیوند کر سکتے ہیں ۔
اس بنا پر اس کی موت کے بعد اس کے ورثا ء کو شرعی طور پر معین دیت ادا کرنے کے بعد مدنظر عضو کو قطع کر سکتے ہیں ۔[7]
علاوہ ازیں یہ احتمال بھی ہے کہ مومن کی زندگی اورموت کے بعد اس کے مُثلہ کرنے کی جو حرمت ہے ،اس سے مراد یہ ہو کہ اس کے اعضا ء کو انتقام اور اذیت وآزار پہنچانے کے لیے قطع کیا جائے ،یا اُسے بدنام ،ذلیل وخوا ر اور بے وقعت کرنے کے لیے مُثلہ کیاجائے لیکن اگر اعضاء کو عقلائی مصلحتوں اور فائدوں کے لیے جدا کیا جائے تو گزشتہ احادیث اس موردکو شامل نہیں ہو ں گی۔
عضو کوکاٹنے کی دیت کا مسئلہ آگے چل کر بیان ہو گا ۔
دوسرا اعتراض :

 موت کا ثابت نہ ہو نا۔ 
عام طور پرمردے سے کسی عضو کو زندہ انسان میں منتقل کرنا حرکت قلب کے بند ہو نے کی صورت میں ممکن نہیں ہے مگر نادر مواقع پر،کیونکہ حرکت قلب کے بند ہو نے کے بعد باقی اعضاء کے زندہ رہنے کی مدت بہت ہی کم ہے اور بہت ہی نادر ہے کہ سر جن اس کم مدت میں مردے کے عضو کو حرکت قلب کے بند ہو نے کے بعد زندہ انسان کے بدن میں منتقل کرنے میں کامیا ب ہو جائے ۔
البتہ دماغی موت (
Brain Death )کی صورت میں ایساکرنا ممکن ہے کیونکہ اس حالت میں دِل یا تو طبیعی طور پر یا پھر میڈیکل مشینری کے ذریعے کام کر رہا ہو تا ہے اور رگوں میں خون جا ری رکھے ہو ئے ہو تا ہے اور لمبے عرصے تک کسی عضو زندہ رکھا جا سکتا ہے اور سر جن ڈاکٹر ز کا میابی کے ساتھ دماغی موت کے حامل شخص کے عضو کو جدا کر کے اُسے مریض کے بدن میں منتقل کر سکتے ہیں، لیکن اس آپریشن کاشرعی جواز اس بات پر موقوف ہے کہ یہ ثابت ہو کہ دماغی موت کا مریض مر چکاہے ،اگر شرعی لحاظ سے اس کی موت ثابت نہ ہو تو اس کے حیاتی اعضاء مثلا ً دِل کوزندہ بیمار کے بدن میں منتقل کرنا جائز نہیںہو گااور یہ مسئلہ تیسری صورت بن جا ئے گا یعنی وہ مورد جہاں مریض میں عضو کی پیو ند کاری ،عطیہ دینے والے کی موت کا سبب بن جا ئے ۔جیسے زندہ انسان کے دِ ل کو دوسرے انسان میں منتقل کرنے کی اجازت دینا جو کہ قطعاً جائز نہیں ہے ،کیونکہ یہ عطیہ دینے والے کی موت کا موجب ہے یہ صورت اگر چہ موت کے منہ میں پڑے ہو ئے بیمار کو دوبارہ زندگی عطا کر نا ہے لیکن پھر بھی جائز نہیں ہے ۔
اس لیے دماغی موت کے مریضوں کے بدن سے حیاتی اعضاء کو دوسرے مریضوں میں منتقل کرنے کا شرعی لحاظ سے درست ہو نا اس امر پر متوقف ہے کہ شرعی طور پر ثابت ہو کہ دماغی موت ،ایک حقیقی موت ہے ،اور اگر شرعی طور پر اس کی موت ثابت نہ ہو تو دماغی موت والے مردے کی حیاتی اعضاء کو زندہ مریضوں کے ساتھ پیوندکاری جائز نہیں ہو گی۔کیونکہ موت کے لیے قدرمتیقن ،حرکت قلب کا بند ہو نا ہے بصورت دیگر زندگی کا استصحاب جاری ہو گا اور زندگی کی بقاء کا حکم جاری ہو گا پس دماغی موت کی حالت میں موت سے متعلق احکام اس پر لاگو نہیں ہو ں گے ۔
ہم اس مقالے میں اس امر کی تحقیق کریں گے کہ زندگی کا اختتام حرکت قلب کا بند ہونا ہے یا دماغ کا مرجانا ہے کیونکہ بہت سے اہم فقہی مسائل کا دارومدار اس سوال کے جواب پر ہے۔
(جاری ہے )
حوالہ جات 
١۔ کتاب المکاسب ،شیخ انصاری ص ٥٨،٥٧
٢۔ کتاب المکاسب ،شیخ انصاری قاعدہ نفی ضرر ص ٣٧٤
٣۔  منیة الطالب ،شیخ موسی خوانساری ،تقریر مباحث محقق نائینی ،ص٢ ٢٢
٤۔ تہذیب الاصول،جعفر سبحانی ،تقریرات درس امام خمینی ، انتشارات جامعہ مدرسین ،ج٢،ص٤٩٨



[1] - مومن سے ضرر کو دور کرنے اور بچانے کے واجب ہو نے کے بارے میں ،اگرچہ قتل اورہلاکت تک نوبت نہ پہنچے ، احادیث تمام ابواب فقہ اور حدیث کی کتب میں بہت زیادہ موجود ہیں یہاں پر ان سب کو ذکر کرنے ،اکٹھا کرنے اور ان سے استدلال کرنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن احادیث کی کتب میں موجود بعض ابواب اورعناوین کی طرف اشارہ ضرورکر تے ہیں۔

الف۔ مومن کو ذلیل خوار کرنے ،مومن یا مسلمان پر ظلم کرنے کی حرمت کے بارے میں روایات ایسی روایات کی تعداد بہت زیادہ ہے شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ ج ٨ ،ص٥٥٠۔٥٤٢ میں انہیں ذکر کیا ہے ان میں سے صحیح روایات بھی کا فی ہیں جیسے یہ حدیث ہے جسے ابو المغرنے امام صادق (ع)سے نقل کیا ہے ۔'' المسلم اخ المسلم لا یظلمہ ولایخد لہ ولا یخونہ ''''مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ اس پرظلم نہیں کر تا ،اُسے ذلیل وخوار نہیں کر تا اور اس کے ساتھ خیانت بھی نہیں کر تا ''

ب:۔ مومن کے حقوق کے متعلق بیان ہونے والی روایات دیکھۓ وافی ،ج٣،ص١٠٢ ۔اور وسائل ،ج٨،ص٥٥٠۔٥٤٢  ان میں صحیح روایات بھی موجود ہیں جیسے صحیحہ علی بن عقبہ،اس نے امام صادق (ع)سے نقل کیا ہے ۔''المومن اخ المومن عینہ و دلیلہ لا یخونہ '' (وسائل الشیعہ ،ج٨،ص٥٤٣)''مومن مومن کا بھائی اس کی آنکھ اور اس کا راہنما ہو تا ہے اس کے ساتھ خیانت نہیں کر تا''
ج۔مسلمانوں کے مسائل کواہمیت دینے کے متعلق منقولہ روایات (
اصول کافی ،کتاب الایمان والکفر ،ج٢،ص١٣١ باب الاھتمام بامور المسلمین والنصیحة لھم)ان میں ایک روایت یوں ہے :
''عن علي بن ابراہیم عن ابیہ عن النوفلي عن السکوني عن ابي عبد اللہ (ع) قال رسول اللہ ۖ من اصبح ولا یھتم بامور المسلین فلیس بمسلم ''
''امام صادق (ع) نے رسول اللہ (ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص)نے فرمایا جس نے صبح کی اور مسلمانوں کے امور کو اہمیت نہ دی وہ مسلمان نہیں ہے ''
اس حدیث کو کلینی مرحوم نے اسی باب میں دیگر ذرائع سے بھی نقل کیا ہے ،اس میں نوفلی کاہونا،اس کی سند کے ضعیف ہو نے کا باعث نہیں ہے ،کیونکہ یہ حدیث شیعہ اور سُنی کے بہت سے طرق سے رسول خدا  سے بیان ہو ئی ہے اور استفاضہ کی حد تک پہنچ گئی ہے ،ان احادیث کا لب و لہجہ اس طرح سے ہے کہ ان سے وجوب کے علاوہ کوئی اورمعنی لینامعقول نہیں ہے ۔
د۔مومن کے لیے خیر خواہی اور نصیحت کے متعلق روایات :(رجوع کریں :اصول کافی ،ج٢،ص١٦٩اور ٢٦٩)ان روایات میں کئی تام السند احادیث موجود ہیں مثال کے طورپر یہ حدیث جسے ،عیسی ابو منصور نے امام صادق (ع)سے نقل کیا ہے ۔
''یجب للمومن علی المؤمن ان ینا صحہ ''
''اسی طرح معاویہ بن وھب کی امام صادق 
ـ سے منقول روایت :''یجب للمؤمن علی المؤ من النصیحة في المشھد والمغیب''
نیز ابو عبیدہ حذا کی حدیث جو امام باقر (ع)سے منقول ہے :''یجب للمؤمن علی المؤمن النصیحة '' (اصول کافی ،ج٢،ص١٦٦)
یہ سب روایات سند کے اعتبار سے تام اور صحیح ہیں ۔
ان احادیث میں ''نصیحت'' کامعنی و عظ و ہدایت سے زیادہ وسعت رکھتا ہے،مومن سے ضرر کودور کرنا اور ناگوار حوداث سے مومن کوبچانے کا معنی بھی اس میں موجود ہے اور یہ مطلب 
''النصیحہ فی المشھدوالمغیب''کے جملے سے مراد لیا گیا ہے ۔کیونکہ غیر موجودگی میں نصیحت کا معنی اس کے علاوہ اورکوئی نہیں ہو سکتا چنانچہ نصیحت اللہ کے لیے ،رسول ،قرآن اور مومن کے لیے جو کہ بعض روایات میں آیا ہے ۔اس کے علاوہ اس کا کوئی اور مطلب نہیں ہے کیونکہ ان روایات میں دین خدا ، رسول خدا اور قرآن اورمومنین سے تکلیف و آزار اور برائی کو دور کرنے کے سوا معنی نہیں ہے ۔
نصیحت والی روایات صراحت کے ساتھ وجوب پر دلالت کر تی ہیں ،جیسا کہ پہلے والی روایات کے ظاہری الفاظ سے وجوب ہی ثابت ہو تا ہے ،ان روایات کی یہ تاویل کرنا کہ اس سے مراد مستحب ہو نا ہے تو یہ نص کے خلاف اجتہاد ہے ۔
ہمارے استاد آیت اللہ خوئی ان روایات کے بارے میں فرماتے ہیں :
اگر چہ یہ روایات کثیر اورمعتبر ہیں لیکن یہ اخلاقی جہات کو بیان کر رہی ہیں ، اس لیے ان سے مستحب ہو نا ہی ثابت ہو گا کیونکہ بطور مطلق نصیحت کے وجوب کے قائل ہو نے سے شدید عسرو حرج لا ز م آئے گا ۔(مصباح الفقیہ،ج١،ص٣٥٠)
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہم ان مقامات پر واجب ہو نے کا حکم لگائیں جہاں شدید عسروحرج لازم نہیں آتا اگر ہم یہ نہ کہیں کہ ان میں بعض روایات (جیسے حکم جہاد کو بیان کر نے والی روایا ت)حرج کے مقام پر بیان ہو ئی ہیں ۔
ھ۔مومنین کی مدد کرنے :ان کی پر یشانی اورمشکل کو دور کرنے کے متعلق احادیث :(دیکھئیے
:الوافی ،ج٣،الفصل الخامس ابواب ما یجب علی المومن في المعاشرة)
جو بھی ان احادیث (جو کہ تعداد میں زیادہ میں اور احادیث کی کتب کے تمام ابواب میں متفرق طور پر موجود ہیں )میں غورو فکر کرئے تو ذرا بھی شک نہیں ہو تا کہ مومنین کی مدد کرنا ،اُن کی پریشانیوں اورمشکلات کودور کرنا ،مصائب وآلام سے انہیں بچانا ، ان کے جان ومال کی حفاظت کرنا اور ان کی عزت و آبرو کو خطرات سے بچانا واجب ہے لہذا صاحب مسالک نے کتاب ودیعہ میں فتویٰ دیا ہے کہ اگر امانت رکھنے والا امانت رکھنے پر مجبور ہے تو دوسرے مومن پر اُسے قبول کرنا اور امانت داری واجب ہے ۔(جواہر الکلام ،ج٢٧،ص١٠٢)

[2] ۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ انسان محترم کی جان بچانے کے واجب ہو نے کی دلیل لُبی (عقلی)ہے نہ کہ لفظی ،بالفرض لفظی بھی هو تو مطلق نہیں ہے ۔اور واضح ہے کہ اس مسئلہ میں دلیل لُبی جیسے اجماع اور ضرورت فقہی باب تزاحم کے اصولوں سے قطع نظر اس صورت کو شامل نہیں ہو گی جسمیں دوسرے کی موت سے نجات اپنے آپ کو بہت زیادہ ضرر پہنچانے سے وابستہ ہے ،چنانچہ اپنے آپ کو ضرر پہنچانے کی حرمت کی ادلہ انسان محترم کی جان بچانے کے لیے ضرر کو تحمل کرنے کی نسبت مطلق نہیں ہے کیونکہ موضوع اورحکم کی مناسبتیں اس اطلاق میں مانع ہیں ۔پس حرمت اوروجو ب دونوں بر طرف ہو جا ئیں گے اور جواز ثابت ہو جائے گا۔

[3] . مگر کسی بہت ہی اہم مقصد کی خاطر جیسے لشکر اسلام کو بچانا ،اس صورت میں اپنے آپ کو قربان کر دینا جائز ہے ۔

[4] وسائل الشیعہ،ج١٩،٢٤٨ ،باب ٢٤ از ابواب دیات الاعضاء،ح٤

[5] ۔وسائل الشیعہ ،ج١٩،ص٢٤٩،باب٢٥ا ز ابواب دیات الاعضا ء ،ح١

[6] ۔ایضا ً ص٢٥١،ح٤

[7] ۔دیکھیئے : المسائل الشرعیہ،ج٢،آیت اللہ خوئی ،موسئسہ الامام الخوئی ،٣١٥،٣١٨

سوال بھیجیں