زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
مقالوں کی ترتیب جدیدترین مقالات اتفاقی مقالات زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں
■ سیدعادل علوی (28)
■ اداریہ (14)
■ حضرت امام خمینی(رہ) (7)
■ انوار قدسیہ (14)
■ مصطفی علی فخری
■ سوالات اورجوابات (5)
■ ذاکرحسین ثاقب ڈوروی (5)
■ ھیئت التحریر (14)
■ سید شہوار نقوی (3)
■ اصغر اعجاز قائمی (1)
■ سیدجمال عباس نقوی (1)
■ سیدسجاد حسین رضوی (2)
■ سیدحسن عباس فطرت (2)
■ میر انیس (1)
■ سیدسجاد ناصر سعید عبقاتی (2)
■ سیداطہرحسین رضوی (1)
■ سیدمبین حیدر رضوی (1)
■ معجز جلالپوری (2)
■ سیدمہدی حسن کاظمی (1)
■ ابو جعفر نقوی (1)
■ سرکارمحمد۔قم (1)
■ اقبال حیدرحیدری (1)
■ سیدمجتبیٰ قاسم نقوی بجنوری (1)
■ سید نجیب الحسن زیدی (1)
■ علامہ جوادی کلیم الہ آبادی (2)
■ سید کوثرمجتبیٰ نقوی (2)
■ ذیشان حیدر (2)
■ علامہ علی نقی النقوی (1)
■ ڈاکٹرسیدسلمان علی رضوی (1)
■ سید گلزار حیدر رضوی (1)
■ سیدمحمدمقتدی رضوی چھولسی (1)
■ یاوری سرسوی (1)
■ فدا حسین عابدی (3)
■ غلام عباس رئیسی (1)
■ محمد یعقوب بشوی (1)
■ سید ریاض حسین اختر (1)
■ اختر حسین نسیم (1)
■ محمدی ری شہری (1)
■ مرتضیٰ حسین مطہری (3)
■ فدا علی حلیمی (2)
■ نثارحسین عاملی برسیلی (1)
■ آیت اللہ محمد مہدی آصفی (3)
■ محمد سجاد شاکری (3)
■ استاد محمد محمدی اشتہاردی (1)
■ پروفیسرمحمدعثمان صالح (1)
■ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری (1)
■ شیخ ناصر مکارم شیرازی (1)
■ جواہرعلی اینگوتی (1)
■ سید توقیر عباس کاظمی (3)
■ اشرف حسین (1)
■ محمدعادل (2)
■ محمد عباس جعفری (1)
■ فدا حسین حلیمی (1)
■ سکندر علی بہشتی (1)
■ خادم حسین جاوید (1)
■ محمد عباس ہاشمی (1)
■ علی سردار (1)
■ محمد علی جوہری (2)
■ نثار حسین یزدانی (1)
■ سید محمود کاظمی (1)
■ محمدکاظم روحانی (1)
■ غلام محمدمحمدی (1)
■ محمدعلی صابری (2)
■ عرفان حیدر (1)
■ غلام مہدی حکیمی (1)
■ منظورحسین برسیلی (1)
■ ملک جرار عباس یزدانی (2)
■ عظمت علی (1)
■ اکبر حسین مخلصی (1)

جدیدترین مقالات

اتفاقی مقالات

زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں

اهل بىت ع)کى شخصىت آىت مودت کى روشنى مىں۔مجلہ عشاق اہل بیت 10-شوال 1434ھ

اهل بىت علیهم السلام کى شخصىت

آىت مودت کى روشنى مىں

(شىعه اور اهل سنت کے نقطه نظر سے)

فداحسىن عابدى

آخری قسط

آيت مودت اوراهل بىت کى افضلىت:

مودت اهل بىت علیہم السلام بغیر کسی قید وشرط کے واجب هے اور جس کى مودت بغیر کسی قید وشرط کےواجب هو وه دوسروں سے افضل  هوتاهے اس مطلب کو ابن تىمىه نے بھى قبول کىا هے اور کها هے:”لانّ وجوب المودّة علی مقدار الفضل“ فضىلت کے مقدار کے مطابق مودت واجب هوتى هے۔پس مودت اهل بىت تمام مسلمانوں  کےهاں حتى ابن تىمىه کے نزدىک واجب هے لهذا اهل بىت  علیہم السلام سب سے افضل هىں۔ ابن تىمىه کے اعتراف کے مطابق امامت اور ولاىت بھى افضلىت کى بنا پر ملتى هے جناب عمر کے قتل کے بعد چھےرکنى کمىٹى  سب سے افضل کو معین  کرنے کیلئے تشکیل پائی تھی  که کون سب سے افضل هے تاکه خلافت اپنے حقدار کے  سپرد کیا جائے؟ ابن تىمىه کى نظر کے مطابق بھى افضل کے هوتے هوئے  مفضول کا امام بننا صحىح  نهىں هے بلکه ىه بهت بڑا ظلم هے:”تولية المفضول مع وجود الافضل ظلم عظيم۔“[1] لىکن تارىخ گواه هے که رسول خدا ﷺکے بعد امت مىں سب سے افضل اهلبیت علیهم السلام هیں هاں! آىت مودت کا اهل بىت کى شان مىں نازل هونا بهت بڑى فضىلت هے جس کى طرف امام صادق نے بھى اشاره فرماىا هے:” الحمدللّه الذي فضلّنا؛اس خدا کا شکر هے جس نے همىں (سب پر )فضیلت دی هے ۔“[2]

آىت مودت اور عصمت اهل بىت علیہم السلام

 کسى قىد و شرط کے بغىر کسى کى محبت کا واجب هونا اس کے معصوم هونے کى علامت هے اس مطلب کو واضح کرنے کےلئے هم فخر رازى کے کلام پر اکتفا کرتے هىں فخر رازى، آىت اولى الامر ”ا یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا أَطیعُوا اللَّهَ وَ أَطیعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِی الْأَمْرِ مِنْکُم “ (سوره نساء 59)کى تفسىر  مىں کهتے هىں: اس آىت مىں  اولى الامر کى اطاعت کو(کسى قىد کے بغىر) واجب قرار دی گئی هے اس سےاس کا معصوم هونا  لازم آتا هے چونکه جس کى اطاعت کا حکم هوا هےاگر وه معصوم نه هو تو ممکن هے وه کسى بھی وقت گناه کا  حکم دىدے اس وقت خطاکار کى اطاعت واجب هوگى جبکه قرآن نے خطاکار کى اطاعت سے منع کىا هے اس بناپر امر اور نهى کا جمع هونا لازم آتا هے جبکه اىک فعل مىں اىک هى جهت سے امر اور نهى دونوں کا جمع هونا ممنوع هے۔لهذا اس آىت کى روشنى مىں اولى الامرکامعصوم هونا  شرط هے۔[3] آىت مودت مىں بھى مودت اهل بىت کو بغىرکسى قىد و شرط کے واجب قرار دى گئی هے لهذا جن کى محبت اس آىت کى روشنى مىں واجب هے انهىں معصوم هونا چاهئے ورنه اىک هى فعل مىں امر اور نهى کا جمع هونا لازم آئے گا جو قرآن کى روشنى مىں صحىح نهىں هے[4]

اس مطلب کا نتىجه ىه هے که آىت مودت اهل بىت کےمعصوم  هونےپر دلالت کرتى هے  کىونکه مودت کا مطلقا واجب هونا عصمت مطلقه کى دلىل هے۔[5]

آىت مودت اور اطاعت اهل بيت علیہم السلام

مذکوره آىت مىں مودت اهل بىت کو اجر رسالت کے طور پرواجب قرار دى گئی  هے تو ان دونوں مىں تناسب هونا چاهئے رسالت کى عظمت کومدنظر رکھ کر اجر رسالت پر غور کرے تو معلوم هوگا که مودت اهل بىت کتنا اهم هے لهذا ىه کهنا مناسب نهىں هے که خدا نے آىت مودت مىں هم سے صرف اظهار محبت کا تقاضا کىا هے۔ صرف اظهار محبت ،عظمت رسالت کے ساتھ سازگار نهىں هے لهذا ماننا پڑےگا  که خدا مودت کےضمن مىں هم سےاطاعت کا بھى مطالبه کررها هے کىونکه محبت کے ضمن مىں اطاعت ضرورى هے:”إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ“[6]

 علامه حلي نے آىت مودت کو  امامت  کى دلىل کے طور پر بىان کرتے هوئے فرماىا هے:”وجوب المودة یستلزم وجوب الطاعة؛وجوب مودت کا لازمه اطاعت کا واجب هونا هے۔“[7] اور حضرت على(ع)  کے علاوه صحابه اور خلفا مىں سے کسى کى مودت واجب نهىں هے لهذا على (ع) دوسروں سے افضل هے اور اس بناپر وه امام هے۔ امام کى مخالفت مودت کامنافى هے اور ان کے اوامر کى پىروى عىن مودت هے لهذا حضرت على(ع)  کى اطاعت واجب هے اور ىهى امامت کا معنى ٰ هے:”وغير علي علیه السلام من الصحابة الثلاثة لاتجب مودتهم فيكون علي علیه السلام افضل، فيكون هو الامام لانّ مخالفته تنافي المودة و امتثال اوامره تكون مودة فيكون واجب الطاعة و هو معنی الامامة۔“[8]

بعض دوسرے دانشوروں نے بھى آىت مودت سے استدلال کرتے هوئے کها هے که مطلقاًمودت کے واجب هونے کا لازمه اطاعت کا مطلقا واجب هونا هے اسى طرح  مطلقاً وجوب اطاعت لازم آتا هے که اس مىں عصمت کا هونا بھى ضرورى هے که جوامامت کى شرط هے۔[9]

 آىت مودت اور امامت اهل بيتعلیہم السلام

 اىک اهم نکته جو آىت مودت سے استفاده هوتا هے وه اهل بىت کى امامت هے اگرچه مکتب اهل بىت کے اندر امامت کے مسئلے مىں رشته دارى اور نسبى تعلق  کا کوئى عمل دخل نهىں هے لىکن اس سے قطع نظر امامت کى دوسرى شرائط کے ساتھ ساتھ اهل بىت کا نسبى لحاظ سے بھى پىغمبر کا قرىب هونابھى ان کى خاص خصوصىات مىں شمار هوگا۔سىد ابن طاووس ،جاحظ کے جوا ب مىں لکھتے هىں:”امامت کے تحقق مىں قرابت دارى اور نسبى رشته دارىٍ کاکوئى کردار نهىں هے لىکن اگر کوئى قرابت دارى کے کردار  کا لحاظ  کرے تواس اعتبار سے بھى  اهل بىت سب سے  اولىٰ هىں اس لئے که حضرت على پىغمبر اسلام (ص) کے دامادهىں اور تربىت، شجاعت، علمىت، جهاد، تقوى ٰاور زهد کے اعتبار سے على تمام صحابه سے افضل هے تعجب کى بات تو ىه هے که امامت مىں صحابى اور قرىشى هونے کا لحاظ تو کىا جاتا هے لىکن جو شخص پهلا صحابى اور قرابت کے اعتبارسے رسول خدا سےسب سے زىاده نزدىک هے اسے منصب امامت اور خلافت سے دور رکھا گىا هے! رشته دارى اور نسبى اعتبار اگرچه خلافت کے لئے شرط نهىں هے لىکن اسے کلى طور پر نظر انداز بھى نهىں کىا جاسکتا کىونکه اگر نسبى تعلق کى کوئى اهمىت نه هو تو پھر پىغمبر اسلام (ص) اپنے حسب و نسب پر کىوں افتخار کرتے تھے؟[10] ىا ان لوگوں نے اپنے حسب و نسب کا حواله کىوں دىا جوپىغمبر اسلام(ص)  کى رحلت کے بعد خلافت کا معامله طے کرنے کے لئے سقىفه مىں جمع هوئے تھے؟[11]  لهذا جن لوگوں نے خلافت کو ثابت کرنے کے لئے نسب سے استدلال کىا هے ان کے لئے اتنا کهنا کافى هے که اگر نسب سے استدلال کىا جاسکتا هے تو آىت مودت، اهل بىت کى خلافت ثابت کرنے کے لئے بهترىن دلىل هے ۔ حضرت على (ع) نے بھى خلافت کى چھ رکنى کمىٹى کے سامنے جواب نقضى کے طور پر ىوں استدلال کىا تھا:” انشد كم باللّه هل فيكم احد اقرب الي رسول اللّه في الرحم منّي و من جعله رسول الله نفسه و ابناه  ابنائه و نسآئه نسائه؟ قالوا اللهم لا؛ خدا کى قسم!مجھے بتاؤ آىا تم مىں سے کوئى رشته دارى  کے لحاظ سےمجھ سےرسول خدا (ص) کے قرىب هو؟ جس کے نفس کو رسول خدا نے  اپنا نفس، جسکى خواتىن کو اپنى خواتىن اور جس کے بىٹوں کو اپنا بىٹا قرار دىا هو؟ سب نے ىک زبان هوکر کها نهىں!“[12] لهذا قرآنى اور روائى دلىلوں کے علاوه قرىش نے جن چىزوں کو خلافت کے مستحق هونے کے لئے دلىل کے طور پر لاىا هے  حضرت على  (ع)ان تمام مواردمىں دوسروں سے اکمل اور اتم هے۔ بنابر اىن، آىت مودت کا ظهور اهل بىت کى امامت پر بهترىن دلىل هے۔یعنی یه  آىت  ،وجوب مودت، وجوب اطاعت اور وجوب عصمت پر دلالت کرتى هے اور ىه سارى چىزىں امامت کے لئے شرط هىں۔

 آىت  مودت اور اجر رسالت:

اىک بنىادى نکته جو آىت مودت مىں هے وه اهل بىت علیہم السلام کى مودت کواجر رسالت قرار دىنا هے۔ اس لئے که حضور سے پهلے کے تمام انبىاء نے اجر رسالت کى نفى کى هے اور سب نے ىک زبان هوکر کها هے:”وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ؛ مىں تم لوگوں سے رسالت کے وظىفه کى ادائىگى کے بدلے مىں اجرت نهىں مانگتا هوں همارا اجر تو صرف رب عالمىن دے گا۔“[13]

رسول خدا کے اجر رسالت کے بارے مىں چار قسم کى آىتىں هىں:

”قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ“[14]

“قُل لاَّ أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِنْ هُوَ إِلاَّ ذِكْرَى لِلْعَالَمِينَ”[15]

”قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَن شَاء أَن يَتَّخِذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلاً“[16]

”قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى“[17]

مذکوره چار آىتوں کا خلاصه ىه هے:

1۔ مىں تبلىغ رسالت کى  اجرت نهىں چاهتا ؛

2۔ قرآن صرف عالمىن کے لئے ذکر اور نصىحت هے؛

3۔ مىرا اجررسالت ،راه خدا پر گامزن هونا هے؛

4۔اجر رسالت ىه هے که مىرےا قربا سے مودت کرىں۔

صرف پهلى آىت مىں  اجر رسالت کى نفى هوئى هے باقى آىتوں مىں اىک لحاظ سے اجر کا قائل هوا هے ان آىات کو جمع کرنے کا طرىقه ىه هے که جن آىات مىں اجر کى نفى کى گئى هے ان مىں اجر سے مراد اجر دنىوى اور مادى هے اور باقى آىتوں مىں جس اجر کا مطالبه کیا گیا هے وه معنوی هے ان میں کسى قسم کا تناقض اور ٹکراو نهىں هے کىونکه مودت اهل بىت حقىقت مىں راه خدا کو اخذ کرنا  اور خدا کى طرف دعوت دىناهے اس لئے که اهل بىت سے تمسک کئے بغىر حقىقى معنوں مىں نظام اسلام اور آئىن الٰهى پر عمل کرنا ممکن نهىں هے ىه مطلب حدىث ثقلىن اور حدىث سفىنه جىسى صحىح السندرواىتوں سے ثابت هے۔ لهذا تمام مفسرىن شىعه متفق القول هىں که آىت میں مودت قربی اجر رسالت هے اور اهل سنت کے بهت سے ماىه ناز دانشوروں نے اس مطلب کو قبول کىا هے۔جىسا که فخر رازى نے لکھا هے که”آىت کا ظاهر،مودت کا تقاضا کرتا هے که پىغمبر اسلام (ص) نے مودت اهل بىت کو اجر رسالت کے عنوان سے طلب کىا هے۔“[18] اس کے علاوه ابن حجر هيتمي ( متوفي ، 974) ، احمد بن عبدالله طبري ( متوفي، 694)اور قندوزي حنفي (متوفي، 1294)نے رسول خدا(ص) سےاىک رواىت نقل کى هیں جس مىں صراحت کے ساتھ مودت اهل بىت  علیہم السلام کو اجر رسالت قرار دىا گىا هے:”انّ اللّه جعل اجري عليكم المودة في اهل بيتي و اني سائلكم عنهم غداً“؛خداوند عالم نے مىرى رسالت کا اجرمىرے قرابت داروں کى مودت کو قرار دىا هے اور مىں کل تم سے اس بارے مىں سوال کروں گا۔“[19]

اب سوال ىه هے خداوند عالم نے صرف مودت قربى ٰ کو اجر رسالت کىوں قرار دىا هے؟ اس کا جواب ىه هے که اسلام آخرى دىن هے اور نظام اسلام  نےقىامت تک باقى رهنا هے  پىغمبر اسلام (ص) کے بعد نبوت کا عهده تو ختم هوا هے لىکن  نبوت کى تعلىمات  قىامت تک باقى  رهىں گى ان تعلىمات کو دوسروں تک پهنچانے کےلئے اىسے افراد کى ضرورت هے جو حضور کى مسند پر آکر لوگوں کے دىنى اور علمى مرجع قرار پائىں وه اهل بىت هىں خداوندقدوس نے ان کى مودت کو امت پر واجب کرکے امت کو اهل بىت کے ساتھ منسلک اور متمسک رکھنے کا ذرىعه فراهم کىا۔ کىونکه خاندان رسالت، قرآن  کا هم پله، حبل الله اور عروة الوثقى ٰهے جب تک ان سے وابسته نهىں هوگاحقىقت مىں نجات ممکن نهىں هے۔

 آيت مودت اور وحدت اسلامي:

مسلمان همىشه سے وحدت اور هم دلى کے محتاج رهےهىں اور خصوصاً اس وقت عالم اسلام  کوبهت سى مشکلات کا سامنا هے  اور سارے مسلمان راه حل کى تلاش مىں هىں۔ ان مشکلات کا بهترىن راه حل ىه هے که سب قرآن اور اهل بىت کے دامن سے منسلک هوجائىں اور اس کا بهترىن ذرىعه مودت اهل بىت هے مودت اهل بىت کے بارے مىں کسى کو کوئى اختلاف نهىں هے لهذا محبت اهل بىت کو نقطه اشتراک بناکر شىعه اور اهل سنت مىں وحدت  قائم کى جاسکتى هے که جو اىک عظىم نعمت هے اور اس طرز عمل کے تحت هم عالمی استکبار کى سازشوں سے نجات پاسکتے هىں”بموالاتكم تمت الكلمة وعظمت النعمة و ائتلفت الفرقة“؛ اے اهل بىت کرام! آپ کى محبت  سےامور کامل هوتےهىں ،نعمتىں فراوان هوتى هے اور تفرقه [20]ملتى هے. سے نجات

 البته ىه واضح هے که محبت کا فقط دعوى ٰ کافى نهىں هے بلکه محبت کا لازمه اطاعت هے لهذا مسلمانوں کو چاهئے اپنى زندگى کے تمام مراحل مىں اهل بىت کى پىروى کرىں کىونکه اطاعت کے بغىر تنها محبت کافى نهىں هے جىساکه امام صادق(ع)  فرماتے هىں:

تعصي الاله و انت تظهر حبه،      هذا الفعال في البديع محال

لو كان حبّك صادقاً لا طعته         ان المحب لمن يحب مطيع؛

خدا کى نافرمانى کرتے هو پھراس سے محبت کا اظهاربھى کرتے هو جبکه ىه تعجب آور اورمحال هے اگر تىرى محبت سچى هے تو اس کى اطاعت کرو کىونکه محب اپنے محبوب کا مطىع هوتا هے۔“[21]

مقالےکےاس حصے کا اختتام حسن ختام کے طور پرقائد مسلمین حضرت آىة الله خامنه اى مد ظله کے نورانى کلام سےکرتے هىں آپ فرماتے هىں:”اهل بىت کرام عالم اسلام کى اهم اور درجه اول کى شخصىات مىں سے هىں اوران سے محبت اىک اىسا فرىضه هے جس پر عالم اسلام کے تمام فرقے متفق  هىں۔هم جو اهل بىت کى پىروى پر فخر کرتے هىں اوراصول  اور فروع دىن ٍ،دونوں کو انهى سے لىا هے هرگزىه خىال نه کرىں که اهل بىت  علیہم السلام صرف  همارے هىں اور صرف هم ان سے محبت کرتے هىں بلکه اهل بىتٍ (ع م) اسلام اور عالم اسلام سب کے هىں جس طرح ان کے جدامجد پورے عالم اسلام کے تھے۔ اهم بات ىه هے که عالم اسلام ،اهل بىت علیہم السلام سےمربوط دو محوروں پر جمع هوسکتے هىں ان مىں سے اىک محبت هے جو اىک عاطفى اور عقىدتى مسئله هے اور تمام فرقے اس مسئلے پر متفق هىں۔دوسرا ان کى علمى مرجعىت هے۔ حديث ثقلىن کى روشنى مىں  اهلبیت علیہم السلام قرآن کریم کے هم پله اور هم پاىه هونے کے لحاظ سے اسلامى تعلىمات کواهل بىت علیہم السلام هى سے اخذ کرنا چاهیے ىه  بهت اهم مسئله هے که هم  اهل بىت کے پرچم کوبلند کرکے ان دومحوروں پر عالم اسلام  کو جمع کرىں اس وقت ىه عظىم فرصت  مسلمانوں، خصوصا مکتب اهل بىت کے اختىار مىں هے ۔[22]

خلاصه اور جمع بندى:

گذشته مطالب کوذىل کے نکات مىں خلاصه کىا جاسکتاهے:

1۔ محبت اور مودت اهل بىت شىعه اور اهل سنت دونوں کے نزدىک بالاتفاق واجب هے ۔

2۔ شىعه اور اهل سنت  کےاکثر مفسرىن اور دانشوروں کے نزدىک آىت مودت سے اهل بىت کى مودت کا وجوب  استفاده هوتا هے۔

3۔ شىعه، مودت اهل بىت کو اجر رسالت کے عنوان سے واجب  سمجھتے هىں اور اهل سنت کے بهت سے ماىه ناز دانشوروں نے بھی اس مطلب کو قبول کىا هے.

4۔ قربى ٰ سے مراد تمام شىعه اور بعض اهل سنت کے نزدىک  وهى اهل بىت هىں جن کا ذکر آىت تطهىر مىں هوا هے۔

5۔ شىعه مفسرىن اور دوسرےبعض دانشورٍ، آىت مودت سے وجوب مودت، وجوب اطاعت اور اهل بىت (ع م)  کى عصمت اور امامت کو ثابت کرتے هىں۔

6۔ بشرىت کى دنىوى اور اخروى سعادت مودت  اور اطاعت اهل بىت مىں مضمر هے۔

7۔ مودت اهل بىت، مسلمانوں کے درمىان اتفاق اور وحدت قائم کرنے کا بهترىن محور هے۔

 

منابع وماخذ



[1].ابن تيميه، منهاج السنة النبويه،( بيروت: مكتبه العلميه) ج(3، 4) ،ص277؛ محب الدين طبري،الرياض النضره، باب خلافت ابوبكر، ج1، ص216.

[2].نعمان بن محمد مغربي،دعائم الاسلام،( بي جا، دارالمعارف، 1383)، ج1 ص68.

[3].فخر رازي، تفسير الكبير و مفاتيح الغيب، ج10، ص144.

[4].مجادله (58)آيه 22.

[5].سيد علي حسيني ميلاني، مجله تراثنا، ش45، ص110.

[6].آل عمران (4)آيه 31.

[7].علامه حلي ، نهج الحق،( قم:موسسه دارالهجرة بي تا) ص175.

[8].علامه حلي، منهاج الكرامة،(قم:موسسه پژوهش ومطالعات عاشورا 1400،)ص122.

[9]. عبدالله شبر،حق اليقين ،( بي جا، انوارالهدي،1380 هـ ش)، ص199.

[10]. نووي ،صحيح مسلم بشرح النووي ( بيروت: دارالكتاب العربي، چ دوم، 1407)، ج15 ص36.

[11].احمد بن حنبل، مسند احمد، ج1 ,ص56؛ محمد اسماعيل بخاري،صحيح البخاري، (بيروت:دارالفكر،1401)، ج8، ص37 ؛ بيهقي،السنن الكبري، ج6، ص 165،ج8 ، ص142؛ صحيح ابن حبان، ج2 ,ص150، 156؛ متفي هندي،كنزالعمال ج5 .ص646؛ محمد بن حبان بن احمد، كتاب الثقات،( حيدرآباد كن هند: موسسه الكتب الثقافية 1393 هـ) ج2 ,ص155؛ ابن عساكر،تاريخ مدينة دمشق ج30 ,ص 279؛اسماعيل بن كثير،البداية و النهاية،( بيروت: داراحياء التراث العربي، 1408) ج5،ص268؛ ابن حجر عسقلاني ،فتح الباري شرح البخاري ،ج 7، ص24؛ ؛ابن قتيبه دينوري ،الامامة والسياسة،( قم: انتشارات شريف رضي 1413)، ج1 ص23.

[12].ابن عساكر،تاريخ مدينة دمشق، ج42 ،ص432؛عبدالحسين اميني،الغدير، (بيروت: دارالكتاب العربي، 1379)، ج1 ،ص161.

[13].شعراء(26)آيه 109،127،145،180.

[14].ص (38)آيه 86.

[15].انعام (8)آيه 90.

[16].فرقان (25)آيه 57.

[17].شوري (42) آيه 23.

[18].فخر رازي ،تفسير الكبير و مفاتيح الغيب ، ج 27 – 28 ، ص166.

[19].ابن حجر هيتمي،الصواعق المحرقه، ص171؛احمدبن عبدالله طبري، ذخائر العقبي ، ص63.

[20]. شيخ صدوق، من لايحضره الفقيه ( ناشر قم:  جامعة المدرسين، 1414)، ج2 ، ص616، شيخ طوسي ،تهذيب الاحكام ( ناشر قم: دارالكتب الاسلاميه، چ 4، 1362)، ج6، ص100.

[21].ابن عساكر،تاريخ مدينة دمشق، ج13 ص379 و ج32 ص469؛ابن طاوس ،فلاح السائل ص158،تفسير القمي ، ج1 ص100؛ شهيد مرتضي مطهري ،جاذبه و دافعه علي، ( ايران: انتشارات صدرا)، ص66.

۔ حدىث ولاىت (رهبر معظم کےفرماىشات کا مجموعه )ج4 ص216۔[22]

سوال بھیجیں