زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
مقالوں کی ترتیب جدیدترین مقالات اتفاقی مقالات زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں
■ سیدعادل علوی (28)
■ اداریہ (14)
■ حضرت امام خمینی(رہ) (7)
■ انوار قدسیہ (14)
■ مصطفی علی فخری
■ سوالات اورجوابات (5)
■ ذاکرحسین ثاقب ڈوروی (5)
■ ھیئت التحریر (14)
■ سید شہوار نقوی (3)
■ اصغر اعجاز قائمی (1)
■ سیدجمال عباس نقوی (1)
■ سیدسجاد حسین رضوی (2)
■ سیدحسن عباس فطرت (2)
■ میر انیس (1)
■ سیدسجاد ناصر سعید عبقاتی (2)
■ سیداطہرحسین رضوی (1)
■ سیدمبین حیدر رضوی (1)
■ معجز جلالپوری (2)
■ سیدمہدی حسن کاظمی (1)
■ ابو جعفر نقوی (1)
■ سرکارمحمد۔قم (1)
■ اقبال حیدرحیدری (1)
■ سیدمجتبیٰ قاسم نقوی بجنوری (1)
■ سید نجیب الحسن زیدی (1)
■ علامہ جوادی کلیم الہ آبادی (2)
■ سید کوثرمجتبیٰ نقوی (2)
■ ذیشان حیدر (2)
■ علامہ علی نقی النقوی (1)
■ ڈاکٹرسیدسلمان علی رضوی (1)
■ سید گلزار حیدر رضوی (1)
■ سیدمحمدمقتدی رضوی چھولسی (1)
■ یاوری سرسوی (1)
■ فدا حسین عابدی (3)
■ غلام عباس رئیسی (1)
■ محمد یعقوب بشوی (1)
■ سید ریاض حسین اختر (1)
■ اختر حسین نسیم (1)
■ محمدی ری شہری (1)
■ مرتضیٰ حسین مطہری (3)
■ فدا علی حلیمی (2)
■ نثارحسین عاملی برسیلی (1)
■ آیت اللہ محمد مہدی آصفی (3)
■ محمد سجاد شاکری (3)
■ استاد محمد محمدی اشتہاردی (1)
■ پروفیسرمحمدعثمان صالح (1)
■ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری (1)
■ شیخ ناصر مکارم شیرازی (1)
■ جواہرعلی اینگوتی (1)
■ سید توقیر عباس کاظمی (3)
■ اشرف حسین (1)
■ محمدعادل (2)
■ محمد عباس جعفری (1)
■ فدا حسین حلیمی (1)
■ سکندر علی بہشتی (1)
■ خادم حسین جاوید (1)
■ محمد عباس ہاشمی (1)
■ علی سردار (1)
■ محمد علی جوہری (2)
■ نثار حسین یزدانی (1)
■ سید محمود کاظمی (1)
■ محمدکاظم روحانی (1)
■ غلام محمدمحمدی (1)
■ محمدعلی صابری (2)
■ عرفان حیدر (1)
■ غلام مہدی حکیمی (1)
■ منظورحسین برسیلی (1)
■ ملک جرار عباس یزدانی (2)
■ عظمت علی (1)
■ اکبر حسین مخلصی (1)

جدیدترین مقالات

اتفاقی مقالات

زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں

غیرت کامفھوم نہج البلاغہ کی روشنی میں۔ مجلہ عشاق اہل بیت 16و17۔ربیع الثانی1438ھ

غیرت کا مفھوم  نہج البلاغہ کی روشنی میں

محقق: ملک جرار عباس یزدانی[1]

مقدمہ:  قال علی علیہ السلام:" وعفتہ علی قدر غیرتہ "  ترجمہ:اور{مردکی} عفت کا پیمانہ غیرت و حیا ہے۔[۱]

آج کے زمانے میں لفظ غیرت زبان زد عام ہے اور مختلف مواقع اور مناسبتوں سے   کثرت سے سننے  کے لیے ملتا ہے  ۔ لیکن غیرت کے سلسلے میں عوام اور خواص  کے ذہنوں میں کچھ ابہامات اور شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں لہذا غیرت کے مفہوم اور اس کی اقسام سے آشنائی بہت ضروری ہے یہاں غیرت کے سلسلے میں امیرالمومنین علیہ السلام کے مندرجہ بالا  فرمان کی روشنی میں کچھ عرائض قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔

غیرت:

احیای غیرت آج کے زمانے میں انسان کااصل وظیفہ ہے انسانی طبیعت دوسرے افراد کی بے جا مداخلت { Interfere}کو نا پسند کرتی ہے لہذا جب بھی کوئی کسی انسان کے کام میں مداخلت کرتا ہے تو وہ انسان اس کا عکس العمل ظاہر کرتا ہے  مرحوم نراقی نے جامع السادات میں نقل کیا ہے کہ غیرت: ایسی چیز کی حفاظت کی کوشش کرنا  کہ جس کی حفاظت ضروری ہے ۔[۲] ،علامہ طبا طبائی فرماتے ہیں : غیرت یعنی انسان کے وجود میں تلاطم ایجاد ہونا  اور حالت اعتدال سے خارج ہونا ۔ اور اپنی ناموس ،دین ،یا  مقدسات کے دفاع میں عکس العمل ظاہر کرنا ۔ غیرت ایک فطری امر ہے اس کے کچھ دوسرے معانی بھی ذکر ہوئے ہیں۔[۳]

بہرحال غیرت جو کہ ایک فطری چیز ہے معاشرے میں احساس ذمہ داری اور پاکسازی کے لیے مہم ترین عوامل میں سے ہے غیرت انسان کی دفاعی طاقت کو ابھارتی ہے اور انسان اپنی تمام ذخیرہ شدہ طاقت{ Stored Power}کو اپنے اہداف کے لیے استعمال کرتا ہے۔احساس غیرت جوانوں کے اندر بہت ذیادہ مقدار میں موجود ہوتا ہے اگر اس مخفی طاقت {Hidden Power}کو صحیح طریقے  سے استعمال نہ کیا جائے   تو اس بات کا بہت زیادہ خطرہ موجود ہے کہ یہ احساس جھوٹی غیرت مندیوں میں ضائع ہو جائے گا۔

غیرت ایک پسندیدہ صفت ہے  اور اسلام نے اس کی جانب خصوصی توجہات مبذول کی ہیں   اور اسلام یہ چاہتا ہے کہ یہ احساس {Feeling}انسان کے اندر  خاموش اور ضائع نہ ہو ۔ دینی نظام کے اندر خدا وند عالم غیور ہے اور خدا مومنین کی ہتک حرمت کے سلسلے میں  رد عمل{ Reaction}ظاہر کرتا ہے ۔ اس لیے روایات میں آیا ہے کہ (  ان اللہ یغار للمومن فلیغر فانہ منکوس القلب)[۴] خدا وند عالم مومنین کے لیے غیرت ظاہر کرتا ہے پس مومن کو بھی غیور ہونا چاہیے اور جو کوئی غیرت نہیں رکھتا اس کا دل سیاہ ہے۔اس طرح کی او روایات بھی موجود ہیں  مثلا روایات میں اولیا ء الھی کی ایک بہترین صفت {Best Quality}غیرت بیان کی گئی ہے رسول خدا ص ارشاد فرماتے ہیں کہ :{کان ابی ابراہیم غیور و انا غیر منہ وارغم اللہ انف من لا یغار من المومنین}۔[۵]

میرے جد ابراہیم غیرت مند تھے  اور میں ان سے بھی زیادہ غیرت مند ہوں ۔ خدا اس شخص کوذ لیل کرے جو مومنین کی غیرت  کو نہیں مانتا

اور تاریخ میں  یہ بات اظہر من  الشمس ہےکہ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی صفات حمیدہ میں سے ایک ممتاز صفت{ Quality} غیرت تھی جب کفار اور مخالفین اسلام کی طرف سے  اسلام کو توہین یا دھمکی آمیز زبان استعمال کی جاتی  تو آپ بہت زیادہ غیرت اسلامی  اور دینی کا مظاہرہ کرتے  جیسا کہ ایک مشہور و معروف واقعہ  جو تاریخ میں نقل ہوا ہے  کہ معاویہ کے لشکریوں میں سے ایک شخص نے  جب ایک مسلمان عورت اور ایک ذمی عورت کے زیورات چھین لیے  تو آپ نے ایک معروف{Famous} اور تاریخی {Historic }اور غیرت اور عزت سے سر شار جملہ{Sentence} ارشاد فرمایا آپ فرماتے ہیں:{ کہ اگر اس واقعے کے سننے  کے بعد کوئی مسلمان مرد شرم و حیا سے مر جائے  تو یہ کوئی ملامت کی بات نہیں ہے  بلکہ مومن مردوں کا یہی شیوہ ہے ۔[۶]

ایک اور مشہور و معروف واقعہ جو آپ کی حیات مبارکہ میں  ملتا ہے کہ جس سے آپ کی غیرت مندی  اور جرات و شھامت کا احساس ہوتا ہے  کہ حج کے ایام میں ایک جوان کو  خانہ کعبہ میں دیکھا گیا کہ جس کا رخسار سرخ ہو رہا تھا اس سے جب اس کی علت {Reason}پوچھی گئی  تو اس نے کہا کہ حضرت علی علیہ السلام نے مجھے تھپڑ مارا ہے  اور جب اس  بدنی تنبیہ کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے  سوال کیا گیا  تو آپ نے فرمایا ( رایتہ حرم المسلمین) میں نے اسے دیکھا کہ یہ مسلمانوں  کی ناموس کی طرف گندی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔[۷]اس طرح کی اور روایات بھی سیرت معصومین میں موجود ہیں  جن کو نقل کرنے سے ہم صرف نظر{ Avoid}کرتے ہیں کیونکہ ہمارے مد نظر کچھ محدودتیں {Limitations}ہیں اور طول شاید مناسب {Suitable}نہ ہو  اس لیے ہم یہاں حضرت علی علیہ السلام کی غیرت کے متعلق  اس فرمان کی روشنی میں کچھ دیگر توضیحات بیان کریں گے۔

 غیرت کے اقسام :

علامہ طبا طبائی غیرت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں  کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے  کہ انسان کے اندر ایک طاقت موجود ہے  کہ جو اسے مجبور کرتی ہے  کہ جو چیزیں اس کے نزدیک قابل احترام  ہیں ان کا دفاع کرے ۔[۸]

مرحوم نراقی جامع السادات میں  غیرت کی چار اقسام بیان کرتے ہیں  ۔

۱۔ غیرت دینی ۲۔ غیرت مالی ۳۔ غیرت ناموس ۔ ۴۔ غیرت اولاد

اس بارے میں آیت اللہ مکارم شیرازی فرماتے ہیں  کہ اگرچہ غیرت کا لفظ اکثر طور پر  ناموس کی غیرت کے متعلق استعمال ہوتا ہے  لیکن اس کا مفہوم {Meanings}بہت وسیع ہے  اور یہ تمام انسانی اور اعلیٰ اقدار{Best Qualities} کو شامل ہے ۔ [۹]لہذا اس مشہور نظریہ کے بر عکس کہ غیرت کو صرف ناموس کی حد تک رکھا جاتا ہے  اور جیسا کہ خصوصا ہمارے معاشروں میں  یہ صرف مردوں سے مختص چیز ہے  غیرت ایک ایسی اچھی صفت ہے کہ جو ہر مسلمان مرد اور عورت کو شامل ہے  اگرچہ ہو سکتا ہے کہ  غیرت کی شدت{Intensity} اور ضعف میں  مردوں اور عورتوں میں تھوڑا فرق ہو۔

لہذا غیرت ایک ایسی طاقت{Power} اور قوت کا نام ہے  کہ جس کے ذریعے انسان اپنے مادی اور معنوی سرمائے کی اور اس کے ساتھ امت اور معاشرے کی حفاظت  اور دفاع کا فریضہ سر انجام دیتا ہے ۔غیرت کے مفہوم میں ایک عنصر{Element }غیرت دینی ہے  کہ جس کا استعمال امر بالمعروف  اور نہی عن المنکر میں ہوتا ہے  اور یہ غیرت کسی ایک فرد مثلا مرد یا عورت سے مختص{Specific }نہیں ہے  بلکہ ہر بالغ اور عاقل انسان  مسلمان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ احکام الیہ کے اجراء  اور نفاذ کے لیے عملی جد و جہد{Practical Struggle} کرے  ۔ شاید یہ کہنا نامناسب نہ ہو  کہ مسلمان عورت کا پردہ غیرت دین کا ایک ایسا لباس ہے  کہ جس سے خدا ئے متعال نے  اس کے وجود کو آراستہ کیا ہے   اس طرح غیرت کا اہم ترین رکن حریم مقدس ولایت کا دفاع ہے  کہ جو حضرت زہرا سلام اللہ علیہ نے انجام دیا  اور شاید بی بی دو عالم  ان ہستیوں میں سے ہیں  کہ جنہوں نے بہت زیادہ اصرار{Insist} اورالحاح کے باوجود بھی کسی خلیفہ  ناحق کی بیعت نہیں کی ۔ اور انکی یہ سیرت ہی ہمارے لیے بھی درس ہے اور  غیرت دینی ہم ان محترمہ سے سیکھ سکتے ہیں ۔

غیرت دینی:

غیرت دینی یعنی بغیر وقفہ کے اسلامی اور دینی احکام  کے فروغ اور نفاذ کے لیے کوشش اور جدو جہد{Struggle} کرنا ہے  مسلمان اور مومن غیور  ہمیشہ اپنے آپ کو  دین کی راہ میں قربان اور فدا کرنے کے لیے تیار رکھتا ہے ۔ غیرت دینی کی یہ صفت{Quality} انسان کو  اس طرح تیار{ Ready} اور آمادہ کرتی ہے  کہ وہ جب بھی دیکھتا ہے کہ دین یا  دینی اقدار خطرے میں ہیں تو وہ فورا رد عمل ظاہر کرتا ہے  تا کہ دین کی پاسداری کر سکے۔

ہر انسان کے چار مہم ترین اخلاقی وظائف ہیں ۔

۱۔ وظیفہ قومی و ملی:

جن میں وحدت عمومی کو مد نظر رکھا جاتا ہے   غیرت ملی اور قومی  اپنے وطن اور ملت{ Nation}کا دفاع کرنا ہے۔{جھاد}

۲۔ وظیفہ دینی:

دینی وظیفہ یعنی احکام اور اقدار  کی پاسبانی اور حفاظت  اور معنوی اقدار کا دفاع  غیرت دینی سے متعلق ہے  ۔

۳۔ وظیفہ حقوقی:

حقوقی وظیفہ یعنی قوانین اور اصولوں کا دفاع غیرت حقوقی سے معاشرہ{Society} اور عائلی زندگی  ارتقاء{Evolution} کرتی ہے۔

۴۔ وظیفہ اقتصادی:

یہ بھی انسان کا فرض ہے کہ وہ اچھی اور منافع بخش چیزیں پیش کرے غیرت اقتصادی اور مالی کا تقاضہ یہ ہے  کہ انسان اپنے خاندان اور معاشرے کی  مالی ضروریات کو پورا کرے۔

یہاں یہ نقطہ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔کہ غیرت اور حمیت میں فرق{ Difference}موجود ہے ہمارے معاشرے میں اکثر حمیت کو غیرت کے ساتھ مکس ( MIX )کر دیا جاتا ہے درحالانکہ ان دونوں میں فرق موجود ہے حمیت اس آگ اور حرارت کو کہتے ہیں کہ جو انسان کے بدن میں تعصب ، حسد یا نفاق کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔جبکہ غیرت کو خشم مقدس سے تعبیر کیا جاتا ہے اور غیرت کا مفہوم یعنی معاشرے میں پیدا ہونی والی برائیوں اور انحرافات  کے مقابلے میں رد عمل{ Reaction}ظاہر کرنا ہوتا ہے، تاکہ گناہ اور برائی زیادہ نہ پھیل سکے ۔

غیرت ناموس:

 غیرت دینی کا ایک حصہ صرف مسلمان مردوں سے مخصوص{ Specific}ہے  اور وہ یہ کہ مسلمان مرد کی غیرت  مسلم معاشروں{  Muslim Societies}کی عورتوں کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ اس چیز کو غیرت ناموس سے تعبیر کیا جاتا ہے ہر مسلمان مرد کی سوچ کے مطابق {غیرت} غیرت ناموس کا نام ہے ۔ کیونکہ ہر مسلمان مرد کی نظر میں  ایک مسلمان عورت اسلام کا سر مایہ ہے  اور اسلام نے اس کی حرمت اور تقدس کا خاص خیال رکھا ہے اور یہ تقدس اسکے وجود میں ودیعت کر دیا گیا ہے  کیونکہ ایک مسلمان عورت کی توہین  پورے اسلامی معاشرے کی توہین ہے  اور اسلامی نقطہ نگاہ سے تمام مسلمان ایک دوسرے سے وابستہ{Linked }ہیں  کیونکہ انسان کی شناخت{Identity }اور حیثیت ایک مرتبہ اس کی ذات سے متعلق ہے  اور ایک دفعہ اس کے مکتب سے  ، اور ایک مسلمان عورت مکتب اسلام کی مجسم حیثیت کا نام ہے  لہذا ایک مسلمان مرد جس طرح اپنے خاندان یا محارم سے متعلق کسی  قسم کی توہین برداشت نہیں کر سکتا  اسی طرح وہ ایک مسلمان عورت کی توہین  اور ہتک حرمت بھی برداشت  نہیں کرتا  اور جب بھی وہ اس کا مشاہدہ{Observation }کرے گا  حتما  غیرت مند مسلمان  مرداس کا دفاع کرے گا۔

حجاب ایک احترام اور عزت اور ایک اعزاز ہے  کہ جو خدا وند عالم کی طرف سے عورت کو عطا کیا گیا ہے اور مرد کو اس کی حفاظت اور پاسداری کا وظیفہ سونپا گیا ہے لہذا غیرت ناموس ایک فریضہ الھی ہے  جو  ایک غیورمرد مسلمان کو سونپا گیا ہے۔

غیرت کی اساس اور ارکان:

غیرت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان بے جا غصہ کرتا رہے اور عورتوں کے لیے ایک طرح کا ڈکٹیر{ Dictator}بن جائے  غیرت ناموس میں دونوں افراد مرد اور عورت کے لیے حجاب اور اس کی حدود مشخص کی جائیں گی ۔ اور اس لیے غیور کی کچھ خاص شرائط  بیان کی گئیں ہیں اگر وہ انسان میں نہ ہوں تو وہ غیور نہیں کہلائے گا۔

۱۔ ایمان:

 غیرت کےارکان اور عناصر(elements) میں سے ایک مہم ترین رکن ایمان  ہے کیونکہ ایمان کی طاقت انسان کو سستی ،  کاہلی اور غیر جانبداری  سے روکتی ہے اور ایمان انسان کو ایک وظیفہ شناس  مسلمان بناتا ہے  اس لیے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں {غیرۃ الرجل ایمان] مرد کی غیرت اس کا ایمان ہے۔[۱۰]

یا آپ ایک دوسرے فرمان میں ارشاد فرماتے ہیں  (ان الغیرۃ من الایمان} [۱۱]،غیرت ایمان کی نشانیوں(Symbols) میں سے ہےکیونکہ غیرت کا مطلب اقدار کا دفاع ہے  اور جس قدر انسان کے  ایمان میں اضافہ ہو گا  اس کی غیرت بھی بڑھے گی۔

۲۔ عفت اور پاکدامنی:

عفت اور پاکدامنی فقط یکطرفہ{One sided }نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق جس طرح عورت سے ہے اسی طرح مرد سے بھی ہے  بلکہ شاید بعض جھات سے  عفت اور پاکدامنی مرد کے لیے ضروری ہے ۔ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں  کہ غیر ۃ الرجل عفتہ ( مرد کی غیرت اس کی عفت اور پاکدامنی ہے) لہذا ضروری ہے کہ مرد پہلے خود پاکدامن ہو تاکہ وہ دوسروں  کو غیرت کا درس دے کیونکہ مرد جتنا غیور ہوگا  اتنا ہی پاکدامن ہو گا ۔ اور ایک اور روایت میں آیا ہے کہ{ دلیل غیرت الرجل عفتہ}[۱۲] (مرد کی غیرت کی دلیل اس کی عفت و پاکدامنی ہے)۔ہر چیز کی ایک علامت ہوتی ہے اور مرد کی غیرت کی علامت  اسکی عفت ہے  ۔ عفت کا معنی اپنی حفاظت ہے  اور ان دونوں چیزوں عفت اور غیرت کا آپس میں بہت گہرا تعلق  ہے ۔

۳۔ شجاعت:

حضرت امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں  {ثمرۃ الشجاعۃالغیرۃ } [۱۳]غیرت شجاعت کا ثمر اور پھل ہے ۔اسی طرح مرحوم نراقی فرماتے ہیں کہ غیرت کی اساس شجاعت اور قوت  نفس ہے اور بزدل اور خوف میں مبتلا انسان  دوسروں کے حملوں{Attacks} اور تہاجمات کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔

۴۔ معرفت:

غیرت کے ارکان میں ایک مہم اساس اور رکن معرفت ہے ۔ اگر کسی کو یہ احساس اور علم نہ ہو  کہ عورت امت اور اسلام کے لیے کتنا بڑا سرمایہ ہے تو وہ اس کی حفاطت کی میں غیرت کا مظاہرہ نہیں کرے گا لہذا شناخت اور معرفت غیرت  کے اساسی ارکان(Basic Points) میں سے ہے۔

غیرت کی حدود:

غیرت کی حدود و قیود(Limits)مشخص ہیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ مرد غیرت کواپنے لیے قدرت مطلق تصور کریں  بلکہ غیرت کے بارے میں امیرالمومنین علیہ السلام ایک طرف مردوں کو دعوت غیرت مندی دے رہے ہیں  اور دوسری طرف معاشرے میں بگاڑ  ، زیادہ روی اور افراط کی ممانعت کر رہے ہیں ۔

امام فرماتے ہیں {اما تستحیون ولا تغارون نساءکم  یخرجن الی الاسواق یزاحمن العلوج فی الاسواق آلا تغارون؟} [۱۴] ( آیا تمھیں شرم و حیا نہیں آتی  اور تمھاری غیرت نہیں جاگتی  کہ تمھاری عورتیں بازاروں میں جاتی ہیں  اور جوان مردوں{یعنی انکی سوچ اورفکر } کو مشوش کرتی ہیں ۔دوسری روایت میں فرماتے ہیں مجھے خبر ملی ہے کہ تمھاری عورتیں راستوں میں مردوں سے باتیں کرتی ہیں  اور اکھڑدکھاتی ہیں  کیا تمھیں شرم نہیں آتی؟[۱۵]،لیکن دوسری طرف غیرت کے درست اظہار  کی ترغیب کرتے ہیں  کیونکہ بے جا غیرت کا مظاہرہ کرنا اور بغیر  کے اس کا اظھار {Express}کرنا  مشکلات کھڑی کر سکتا ہے  لہذا امام نامہ ۳۱  میں فرماتے ہیں{ ایاک والتغایر فی غیر موضع غیرہ فان ذلک یدعوالصحیحہ الی الغم والبریئہ الی الریب  ۔۔۔۔} ن[۱۶]دیکھو خبردار غیرت کے مواقع کے علاوہ  غیرت کا اظہار مت کرنا کہ اس طرح اچھی عورت بھی برائی کے راستے پر چلی جائے گی   اوبھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ امام صادق علیہ السلام بھی غیرت کی حدود و قیود  اور اس میں افراط اور زیادہ روی  روکنے کے لیے ارشاد فرماتے ہیں کہ (لا غیرت فی الحلال) حلال کاموں میں غیرت نہیں ہے ۔[۱۷]

یعنی بعض لوگ افراط و تفریط کا شکار ہو کر ایسی جگہوں پر بھی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہیں  جہاں نہیں کرنی چاہیے لہذا شریعت کے وہ حلال امور جن میں خود شریعت نے اجازت{ Permission}دی  وہاں انسان کو غیرت کا بے جا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے  دوسری طرف روایت میں دوسروں   کی طرف غلط اور گندی نگاہ سے  منع کیا گیا ہے کیونکہ ایک غیرت مند مسلمان مرد کو یہ زیب نہیں دیتا  کہ وہ دوسروں کی ناموس کی طرف غلط نگاہیں کرے ۔لہذا امام صادق علیہ السلام  اس کے عواقب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں (اما یخشی الذین ینظرون فی ادبار النساء ان یبتلوا بذلک فی نسائھم) [۱۸]آیا جو کوئی دوسروں کی عورتوں کی پشت  پر نگاہ کرتا ہے  کیا وہ نہیں ڈرتا کہ اس کی عورتیں بھی اس میں مبتلا ہو جائیں(یعنی کوئی دوسرا ان کی طرف نگاہ کرے)شاید اسی وجہ سے امیرالمومنین علیہ السلام ایک مردغیور کی ایک صفت {Quality} کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں (ما زنی غیور قط)[۱۹] غیرتمند آدمی کبھی زنا نہیں کرتا۔

گفتار آخر:

یہاں ہم غیرت سے متعلق چند کلمات ذکر کر کے اس بحث کو سمیٹ رہے ہیں کہ اسلام میں اخلاقی اقدار کی حفاظت کا غیرت کے ذریعے دفاع ضروری قرار دیا گیا ہے  کیونکہ ایک غیور انسان معاشرے کی سلامتی کے لیے ہمیشہ حساسیت{ Sensitivity}کا مظاہرہ کرتا ہے  غیرت معاشرہ کے وظیفہ شناس اور آگاہ لوگوں کا راستہ ہے  لہذا آج کے اس پر آشوب اور اخلاقی اقدار کے انحطاط  کے دور میں ضروری ہے  کہ صفت غیرت کو نوجوانوں کے اندر اجاگر کیا جائے تا کہ وہ اپنی اس مخفی طاقت Hidden} Power}کے ذریعے معاشرے میں مثبت کردار{Positive Response }ادا کر سکیں ۔ آج اسلام دشمن طاقتوں کی یہ بھرپور{ Full}کوشش ہے  کہ مسلم معاشرہ سے صفت غیرت کو مٹا دیا جائے تاکہ اس معاشرہ کا عظیم سرمایہ جو جوان لڑکیوں اور لڑکوں کی صورت میں ہے وہ ضائع ہو جائے  کیونکہ ایک یہی وہ عنصر{ Element}ہے کہ جو ہمیں دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہونے کی طاقت اور حوصلہ دیتا ہے۔لہذا آج کے دور میں بالعموم معاشرے کے تمام افراد اور بالخصوص علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کے اندر اس کو زندہ رکھنے کے لیے مختلف ذرائع ابلاغ مثال کے طور پر مذہبی فلموں ، مطبوعات ، تبلیغ ، کتب اور جرائد کے ذریعے استفادہ کریں ۔ کیونکہ اسلام میں غیرت بہت اہمیت {Importance}کاحامل مفہوم  ہے اگر کسی موقع پر انسان کی جان بھی اس راستے میں چلی جائے تو شاید وہ رائیگاں نہ ہو۔

منابع و مصادر:

 قرآن کریم

[۱]   {نہج البلاغہ حکمت ۴۷، اردو ترجمہ،علامہ ذیشان حیدر جوادی،ناشر انصاریان،طبع دوم،سال ۲۰۰۶ م،قم ،ایران}

[۲]     جامع السادات ،ج۱،ص ۲۶۵، اور معراج  السعادہ،ص ۱۶۴ بحوالہ راھبردی مسائل زنان در نہج البلاغۃ،تالیف، سیمیندخت بہزاد پور،ناشر ،شورای فرحنگی اجتماعی زنان،س ۱۳۸۴

[۳]    المیزان،ج۴،ص ۲۸۰،{یہ مطلب کتاب آسیب ھا و غیرتمندی،ص۱۳ سے نقل کیا گیا ہے}

[۴]   وسائل الشیعہ ج ۴ صفحہ ۱۰۷)

[۵]    صدوق،ابن بابویہ،من لا یحضرہ الفقیہ ج۳ ص۴۴۴، انتشارات جامعہ مدرسین ،قم،چاپ دوم،۱۴۰۴

[۶]    ہج البلاغہ خطبہ ۳۷)

[۷]    امام علی و نظارت مردمی محمد دشتی ۱۲۸

[۸]     اکبری،محمود،آسیب ھا و غیرتمندی،ص۱۴}انتشارات ادب،قم،۱۳۷۸ 

[۹]      آیت اللہ مکارم شیرازی،انتشارات نسل جوان، قم،ایران پیاام قرآن،چاپ دوم، ج۳ ص۴۳۸)

[۱۰]    حسین شیخ الاسلامی ،ترجمہ نثار احمد زین پوری، ناشر، انصاریان،قم ، ایران، طبع اول   ۲۰۰۵ م ،غرر الحکم و درر اکلم،ج۲ ص ۳۰۹،

[۱۱]    حر عاملی، محمد بن حسن،وسایل الشیعہ  ،ج ۱۴،ص۱۰۹،موسسہ آل البیت،قم،چاپ سوم،۱۴۱۶

[۱۲]  غرر االحکم و درر اکلم،ج۲،ص۳۱۹{ایضا}

[۱۳]  ینابیع الحکمۃ،ج۴،ص۳۰۹

[۱۴]  وسایل الشیعہ،ج۱۴،ص۱۷۴،{ایضا}

[۱۵]  ایضا

[۱۶] نہج البلاغہ،خط ۳۱، (ص ،۵۴۱، ترجمہ جوادی)

[۱۷]  وسایل الشیعہ ،ج۱۴،ص۱۷۶

[۱۸]  ایضا،ص ۱۴۵،ج۱۴،

[۱۹]  نہج البلاغہ،حکمت ۳۰۵



۔ ایم ۔اے اسلامیات ،عربی، ا یم فل ، تاریخ  تمدن اسلام  ،المصطفی  ﷺ  انٹر نیشنل یونیورسٹی، محقق ، ،مرکز فقھی آیمہ اطھار ؑ، قم ،ایران، (شعبہ مذاھب اسلامی)[1]

سوال بھیجیں