■ 2۔ اسلامی مناسبات محبوب علی جوہری
■ 3۔ دعوت دین اورصبر زاہدحسین زاہدی
■ 4۔ انوارہدایت ذاکرحسین ثاقب
■ 5۔ قیام امام حسین ؑ کا عرفانی پیغام اشرف حسین صالح
■ 6۔ سونے کے کان میں کوئلے کی تلاش اکبرحسین فیاضی
■ 7۔ حضرت زہراء(س)کی فضیلت مرتضی حسین مطہری
■ 8۔ دعا عبادت کامغزہے ۔ سیدعادل علوی(مدظلہ)
■ 9۔ نقالوں سے ساؤدھان! عظمت علی
■ 10۔ بے عطوفت ماؤں کی آغوش محمد علی جوہری
- حج کے اسرار اور معارف
- مجلہ عشاق اہل بیت 18و19۔ربیع الثانی1439ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 16و17۔ربیع الثانی1438ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 14و 15 ۔ ربیع الثانی 1437 ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 12و 13۔ربیع الثانی 1436ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 11-ربیع الثاني1435ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 10-شوال 1434ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت9۔ربیع الثانی 1434ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 8- شوال۔ 1433ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 7۔ محرم ،صفر، ربیع الاول ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 6۔شوال ،ذیقعدہ ، ذی الحجہ ۔1420ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 5۔ رجب ،شعبان، رمضان ۔1420ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 4۔ رجب ،شعبان، رمضان ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 3۔ ربیع الثانی،جمادی الاول، جمادی الثانی ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 2۔ محرم،صفر ، ربیع الاول ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 1۔ شوال ،ذی الحجہ 1414 ھ
- خورشیدفقاہت
دعوت دین اور صبر
مقدمہ:
علما کی ذمہ داریوں میں سے ایک دعوت دین ہے اور دعوت دین کے راہ میں صبر سے بڑھ کر کوئی زاد و راحلہ نہیں جو داعی کے کام آئے اور صبر کے بغیر داعی کو ایک قدم بھی اگے بڑھنے کی گنجائش نہیں ہے اور بے صبری دعوت دین میں ایک مہلک بیماری اور اس سلسلے میں سب سے بڑی روکاٹ ہے ۔اگر دعوت دین میں استقامت و صبر کا ثبوت دیں تو معاشرے میں تبدیلی امکان اور اسلامی اقدار کے مطابق معاشرے کا قیام ممکن ہے اور اس کے الٹ اگر دعوت کے سلسلے میں اٹھنے والے آزمائشوں اور مشکلات سے گھبرا جائے اور کمرزوری دیکھانے لگے تو دعوت دین کا منصوبہ ناکام ہوجائے گا اور یہ ناکامی سبب بنے گی دعوت کا سلسلہ رک جائے اور ساتھ عصرحاضر میں سب سے بڑی مشکل جو دعوت دین کے حوالے سے پیش آتی ہے وہ صبر سے محرومی ہے چنانچہ اس بےصبری نے ایسا کام کردیا ہے کہ ہم جلدی سے بہت سے فیصلے سناتے ہیں جب کسی سے کوئی بات سنے تو یہاں سے کفر کا فتواؤں کا انبار لگ جاتا ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن کریم اور احادیث میں صبر پر بہت زیادہ تاکید کی گئ ہے ۔
دین و دنیا کی کامیابی صبر کرنے والوں کے لیے قرار دیا ہے اور صبر اختیار کرنے سے حوصلہ اور عزم انسان بڑھ جاتا ہے پرعظم اور حوصلہ مند ہونا ہی دنیا میں کامیابی کی ضمانت دیتی ہے اور صبر کے مختلف پہلو ہیں جیسا کہ آفات دنیا پر صبر،نفسانی خواہشوں پر صبر،اللہ تعالی کی اطاعت میں مشکلات پر صبر،دعوت دین میں صبر،میدان جہاد میں صبر اور انسانی تعلقات میں صبر ان مطالب کے پیش نظر ہم یہاں پر صبر کے حوالے سے کچھ مطالب پیش کرینگے:
صبر کی تعریف
امام خمینی نے دو تعریفیں صبر کے حوالے سے علما سے نقل کیا ہے جیسا کہ اس حوالے سے لکھتے ہیں"صبر کی تعریف طائفہ حقہ کے محقق ،فرقہ حقہ کے مدقق علم و عمل میں کامل نصرالدین طوسی (قدس اللہ نفسہ القدوسی) نے اس طرح فرمائی ہے (ناپسند یدہ حالت میں نفس کو بی تابی سے محفوظ رکھنا صبر ہے) اس طرح عارف محقق مشہور نے منازل السائرین میں اس طرح فرمایا ہے(چھپے ہوئے غم و اندوہ پر نفس کو شکایت سے محفوظ رکھنا صبر ہے ۔[1]
تعریف پر تبصرہ کرتے ہوئے امام خمینی لکھتے ہیں (آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ (اس قسم کا صبر)متوسطین کے مقامات میں شمار کیا جاتا ہے اس لیے کہ نفس جب تک آلائم اور مصائب کو ناپسندیدگی سے دیکھتا ہے اور ان چیزوں سے اس کو باطنی غم حاصل ہوگا اس کی معرفت ناقص ہے جیسے رضا،بہ قضا اور بلاووں پر خوش ہونا ایک بلند مقام ضرور ہے مگر ہم اس کو بھی متوسطین کے مقامات میں شمار کرتے ہیں ۔اس طرح گناہوں اور اطاعتوں پر صبر کو بھی اسرار عبادات اور معاصی و طاعات کی صورتوں کی معرفت میں نقص شمار کیا جاتا ہے۔
گویا امام خمینی اس تعریف پر معترض ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ درمیانی طبقہ پر صدق آسکتا ہے جو اطاعت اور معصیت کو ناپسندیدہ یا غم جانتے ہیں مگر کچھ خاص لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو ان چیزوں کو اصلا ناپسند تصور نہیں کرتے ہیں اور اطاعت اور معصیت کو کسی عمیق اور گہرائی نظر سے بھی دیکھتے ہیں اسی وجہ سے اگے چل کر فرماتے ہیں’’اگر کوئی عبادات کی حقیقت کو سمجھتا ہو اور اس کی خوبصورت برزخی شکل سے آشنا ہو اور اس پر ایمان رکھتا ہو اور معصیت کی وحشت ناک برزخی صورت پر ایمان رکھتا ہو تو ان مقامات پر اس کیلئے صبر بے معنی شئ ہے بلکہ مطلب اس کے برعکس ہے ،کیونکہ یہاں پر اگر اس کو خوشی اور راحتی نصیب ہو یا اس کام نتیجتاََ ترک عبادات یا فعل معصیت ہو تو یہ چیزیں ان کے لئے ناپسندیدہ ہوئی ہے اور اس کے باطنی تکلیف اور معصیت پر اہل صبر کے غم و اندوہ سے کہیں زیادہ ہیں۔[2]
صبر کے اقسام
ایک اور نکتہ جو علما نے صبر کے حوالے سے کتابوں میں لکھا ہے وہ صبر کے اقسام ہیں جیسا کہ علامہ طباطبائی اس حوالے سے لکھتے ہیں’’صبر کے تین اقسام ہیں : ۱۔اطاعت پر صبر ۲۔معصیت پر صبر ۳۔مصیبت پر صبر[3]
جیسا کہ روایت میں بھی اس حوالے سے نقل ہوا ہے کہ صبر کے تین قسم ہیں چنانچہ کافی میں حضرت علیؑ سے روایت ہے کہ رسول خدا نے فرمایا’’الصبر ثلاثۃ :صبر عند المصیبۃ و صبر علی الطاعۃ صبر علی المصیبۃ‘‘ صبر تین قسم کا ہے :مصیبت پر صبر،اطاعت پر صبر اور معصیت پر صبر ۔
یہ صبر کے اقسام کم و بیش سارے علما نے اخلاقی کتابوں میں لکھا ہے لیکن امام خمینی اس قسم کے صبر کو عوام اور متوسطین کے حالات سے متعلق قرار دیتے ہیں اور صبر کےتین اقسام بیان کرتے ہیں جو اہل سلوک اور اولیا الہی سے متعلق ہوتے ہیں چنانکہ اس حوالے سے فرماتے ہیں’’
چنانچہ ان میں سے ایک ’’صبرفی اللہ‘‘ہے یعنی میدان جہاد میں ثابت قدمی رہنا اور پسندیدہ اور محبوب چیزوں کو،بلکہ خود اپنے کو راہ محبوب میں ترک کردینا اور یہ اہل سلوک سے متعلق ہے ۔
دوسرا مرتبہ ’’صبرمع اللہ‘‘ ہے یہ ان اہل حضور مشاہدین جمال سے متعلق ہے جب وہ زیور بشریت سے خارج ہوں،افعال و صفات کے لباس سے مجرد ہوں اور ان کے قلوب اسما و صفات کی تجلیات سے روشن ہوں۔
تیسرا مرتبہ’’صبرعن اللہ‘‘ ہے یہ ان عشاق و مشتاقین کا درجہ ہے جو اہل شہود و عیان ہوں ۔[4]
خواجہ طوسی اس حوالے سے فرماتے ہیں’’صبر یعنی نفس کو بی تابی اور شکوہ و شکایت سے روکنا ہے یہ صبر عام لوگوں کے لیے دشوارترین منزل اور اہل محبت کے لیے خوف ناک ترین مقام اور توحید والوں کے لیے پائین ترین جگہ ہے اور یہ تین قسم ہے:معصیت سے صبر کرنا ،اطاعت پر صبر کرنا اور تیسرا بلا اور مصائب پر صبر کرنا ہے ‘‘[5]
صبر اور حریت
صبر کا اہم پہلو حریت اور آزادی ہے جو ایک داعی کے لیے انتہائی لازم شئ ہے چونکہ انسان مصائب اور آلام کے سامنے بسااوقات گھٹنے ٹیک دیتے ہیں تو اس کا حتمی نتیجہ غلامی،اور شہوتوں کا اسیر ہونا ہے اور امام خمینی حریت اور آزادی کو صبر کا سب سے بڑا نتیجہ قرار دیتے ہیں جیساکہ فرماتے ہیں’’ نفس کی غلامی سے آزادی کا سب سے بڑا نتیجہ اور عظیم ثمرہ ،مصیبتوں اور بلیات میں صبر ہے اور یہ ہماری زمہ داری ہے کہ صبرکے معنی کو اجمالا بیان کریں اور اس کے اقسام اور ثمرات اور حریت سے ارتباط کا ذکر کریں۔ [6]
امام خمینی بے صبری کیسے انسان کی حریت کو چھین سکتا ہے توضیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں (اگر انسان نفسانی خواہشوں اور شہوانی طاقتوں کا اسیر ہو گیا تو ان چیزوں کا تسلط جتنا زیادہ ہوگا اس کی غلامی ،قیدوبند اور عبودیت بھی اس قدر زیادہ ہوگی اور کسی کی عبودیت و غلامی کا مقصد اطاعت اور اس کے سامنے سرنگوں ہوناہے ۔
اور اس کے سامنے اس کی حثیت ایک حلقہ بگوش غلام اور فرمابردار بندے کی ہوتی ہے پھر نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ انسان ان چیزوں کی اطاعت کو زمین اور آسمان کے مالک خدا کی اطاعت پر مقدم کرتا ہے اور اس کی بندگی کو حقیقی مالک الملوک کی بندگی پر ترجیح دیتا ہے اور پھر اس وقت اس کی عزت،آزادی اور حریت پسندی اس کے قلب سے بوریا بستر باندھ لیتی ہے اور اس کے چہرہ قلب پر بندگی و غربت و ذلت کا غبار چھا جاتا ہے اور وہ اہل دنیا کے تابع ہوجاتا ہے‘‘ [7]
اگر داعی کی یہ حالت ہو جائے تو پھر اگے نہ تو اہل دنیا سے مقابلہ کرنا یا انکو دعوت دینے کی سکت باقی نہیں رہتی ہے پھر دعوت دین بے معنی ہوجاتا ہے اسی وجہ سے اگے چل کر امام خمینی فرماتے ہیں’’اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کیلئے اپنے جیسے افراد کی ذلت و منت برداشت کرتا ہے اور جنسی خواہشات کی تکمیل کیلئے ذلت اور رسوائی برداشت کرتا ہے اور جب تک شہوت اور نفس کا غلام رہتا ہے کسی بھی قسم کی عزت و جوانمردی اور حریت کے خلاف ورزی سے ہچکچاتا نہیں ہے اور ہر کس و ناکس کی اطاعت کرتا ہے ۔اور محض حصول مطلب کی امکان کی بنا پر چاہے وہ امکان خیالی ہی کیوں نہ ہو ہر بے قیمت اور پست شخص کا احسان اٹھانے کیلئے تیار ہوتا ہے‘‘[8]
امیرالمومنین ؑ ایک حدیث میں فرماتے ہیں’’ عبدالشہوہ اسیر لا ینفک اسرہ‘‘ شہوت کا غلام ایسا اسیر ہے کبھی بھی آزادی کا مزہ چکھ نہیں سکتا ہے ‘‘[9]
امام صادق ؑ بھی ایسا انسان جو صبر کو پیشہ کریں’’ حریت‘‘ اور آزادی کی نعمت سے نوازنے کے بارے میں فرماتے ہیں’’ان الحر حر فی جمیع احوالہ ان نابت نائبہ صبر لھا و ان تداکت علیہ المصائب لم تکسرہ و ان اسر و قھر و استبدل الامین صلوات اللہ علیہ لم یضرر حریتہ ان استبعد و قھر و اسر لم تضررہ ظلمہ الحب و ما نالہ ان من اللہ علیہ فجعل الجبار لہ عبدا بعد اذ کان لہ مالکا‘‘ ابی بصیر کہتا ہے کہ میں نے امام صادق سے سنا کہ فرمارہے تھے ’’آزاد انسان ہر حالت میں آزاد رہتا ہے۔ اگر ایک مصیبت آجائے تو صبر کرتا ہے اگر مصائب اس پر حملہ کریں ٹوٹ نہیں جاتا ہے گرچہ وہ اسیر اور مجبور ہو جائے اور آسائش اور سادہ زندگی مشقت اور زحمت میں تبدیل ہو جائے جیسا کہ کنواں کی تاریکی اور غلامی اور مجبوری یوسف امین ؑ کے زندگی کو آسیب نہ پہنچا سکی اور اسی صبر اور شکیبا ئی کے نتیجہ میں جبار عالم نے مصر کے متکبر اور جابر کو غلام بنایا جبکہ اس سے پہلے اس کا مالک تھا۔
اس روایت میں نہایت خوبصورتی سے حریت اور صبر کے رابطے کو بیان کیا ہے مصائب اور مشکلات انسان سے اس کی آزادی نہیں چھن سکتی ہے جیسا کہ روایت میں حضرت یوسف ؑ کے واقعہ سے استناد کرتے ہوئے فرمایا یوسف کو دنیوی غلامی اور مشکلات و مصائب نے حریت اور آزادی کو چھین نہ سکا یہ ہوتا ہے صبر کا کمال ۔
تقسیم نعمت اور صبر
صبر کا اور پہلو نعمتوں کی تقسیم ہے اور جب انسان معاشرہ میں دیکھتا ہے کوئی امیر ہے اور کوئی غریب ،کسی کو زیادہ ذہین بنایا مگر وسائل نہیں بخشے کسی کو سادہ لوح بنایا تو اسے ڈھیروں مال دے دیا ،کسی کو حسن بخشا تو کسی کو بدشکلی ،کوئی انتہائی فقر و فاقہ سے زندگی گزر رہا ہے تو کوئی عیش و عشرت میں وولت و مال کے بے دریغ استعمال کر رہا ہے یہ دیکھ کر داعی کا قلب غمگین اور افسردہ ہوجاتا ہے اور دعوت دین کے طرف مائل ہونے کے بجائے ان امور پر توجہ کو مرکوز کرتا ہے یہاں پر صبر کرنے والے انتہائی خوبصورتی سے اس تقسیم نعمت پر راضی اور تسلیم ہوتے ہیں یہاں تک کی بعض اوقات ان امور پر بی صبری موجب خون ریزی اور جنگ و جدال تک پہنچ جاتی ہے ۔
جیسا کی قرآن کریم اس سلسلے میں فرماتا ہے:" إِنَّ رَبَّكَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًا۔ وَلا تَقْتُلُوا أَوْلادَکُمْ خَشْیَةَ إِمْلاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِیَّاکُمْ إِنَّ قَتْلَهُمْ کَانَ خِطْئًا کَبِیرًا ۔ [10] تیرا رب جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کردیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے ۔وہ اپنے بندوں کے حالات سے باخبر ہے اور انھیں دیکھ رہا ہے ۔اور اپنے اولاد کو بی مفلسی کے ڑر سے قتل نہ کرو ۔ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی دینگے ۔بے شک انکا قتل ایک بڑی خطا ہے۔
اس آیت میں ایک بہت بڑی معاشرے کی خامی یہی فقر و فاقہ جس کے نتیجہ میں اولاد کے قتل کرتے تھے نشاندہی ہوئی ہے جب رازق اللہ ہی پھر داعی کو کسی اور پر توجہ دینے کی ضرور ت نہیں ہے اسی وجہ سے امام خمینی فرماتے ہیں(اے انسان تو اصول عقائد میں کہتا ہے خدا عادل ہے مگر یہ صرت زبانی دعوی ہے ۔عدل الہی پر ایمان حسد کے منافی ہے تو اگر خداوند عالم کو عادل مانتا ہے تو اس کے منصفانہ ہونے کو تسلیم کرے ۔فطری طور سے منصفانہ تقسیم کے سامنے سر جھکانے پر تیار،ظلم و جور سے گریزاں اور متنفر رہتا ہے فطرت الہی جو زات بشر کے اندر پوشیدہ اور اس کی خمیر میں شامل ہے وہ عدل سے محبت کرتی ہے اور عدل کے سامنے سرنگوں ہے۔
اگر فطرت نے خلاف عدل دیکھا تو معلوم ہونا چاہے اس کی بنیادوں میں نقص ہے اور اگر نعمت پر غضبناک اور تقسیم سے منحرف ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ تقسیم کو غیر عادلانہ سمھجتا ہے بلکہ نعوذباللہ جائرانہ سمجھتا ہے‘‘[11]
پس لازم ہے کہ وہ تقسیم نعمت پر صبر کریں البتہ یہ اس صورت میں ہے اگر معاشرے میں بی عدالتی اور ظلم کی وجہ سے ثروت اندوزی نہ ہو ورنہ داع ی پر لازم ہے اس کے خلاف اقدام کریں ۔
تقسیم نعمت کے حوالے سے امام باقر ؑ سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جس میں فرمایا: ’’و ان عبادی المومنین من لایصلحہ الا الغنی ولو صرفتہ الی ٖغیرذلک لھلک و ان عبادی المومنین من لایصلحہ الا الفقر ولو صرفتہ الی غیر ذلک لھک ‘‘[12]میرے بندوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کی اصلاح دولتمندی اور بی محتاجی کے سوا کچھ نہیں اور اگر میں اس کو اور طرف موڑ دوں تو وہ ہلاک ہوجائے گا اسی طرح بعض بندوں کی اصلاح ان کی غربت میں ہیں اگر کسی اور طرف موڑ دوں تو ہلاک ہوگا۔
اس حدیث کے ذیل میں امام خمینی فرماتے ہیں’’جب بندہ مومن اپنے پروردگار کے نزدیک اتنی عظمت ہے تو غربت و ہلاکت میں کیوں مبتلا ہے؟ اگر دنیا کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو بعض انتے دولتمند اور بعض اتنے غریب کیوں ہیں؟اس پیدا ہونے والی احتمالی سوال کا جواب دیا جارہے ہیں کہ میرے بندوں کے حالات اور ان کے احوال مختلف ہے بعض کا علاج غربت کے سوا کچھ نہیں اس لئے اس کی اصلاح حال کی خاطر غریب بنا دیا گیا ہے اور بعض کی اصلاح بی نیازی اور دولت پر موقوف تھی اس لئے انکو مال دار بنا دیا گیا اور دونوں باتیں مومن کی کرامت اور خدا کے نزدیک اسی قدر و منزلت ہیں‘‘۔[13]
تقسیم نعمت پر بےصبری کا نتیجہ عدم آرامش اور راحتی قرار دیتے ہوئے امام خمینی فرماتے ہیں’’جو لوگ ظاہری اسباب پر اعتماد رکھتے ہیں ان کے حصول میں ہمیشہ تزلزل اور اضطراب پایا جاتا ہے ۔اگر ان کو کوئی صدمہ پہنچ جائے تو بہت ناگوار گزرتا ہے ،کیونکہ وہ نہیں سمجھتے ہیں کہ یہ مصالح غیبیہ سے گھرا ہوا ہے ۔مختصر یہ ہے کہ جو شخص اس دنیا کے حصوں کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہے وہ اس کے حصول میں رنج و غم اٹھاتا ہے،اس کا راحت و آرام ختم ہوجاتا ہے،اس کا سہارا اور ساری فکر اسی میں لگے رہتی ہے جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں اہل دنیا ہمیشہ تعب اور غم میں ہیں انکے پاس قلبی و جسمانی راحت نہیں ہے اسی طرح اگر کوئی معصیبت آجائے تو تاب و طاقت کھو بیٹھتے ہیں اور حادثے پر صبر نہیں کر پاتے ہیں اور یہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ وہ قضا و عدل الہی میں شک و تزلزل رکھتے ہیں‘‘[14]
پس اگر بے صبری کا نتیجہ سکون اور آرامش کا چھن جانا ہے لھذا داعی کیلئے لازم ہے ایسے امور کے بارے میں عدالت اور مصلحت الہی پر یقین کریں اور تقسیم رزق پر راضی ہوجائے۔اگر دعوت دین دینے والوں میں مال و دولت کی حرص اور دنیوی زندگی لگاو پیدا ہوجائے پھر وہ دین کے معانی اور بلند افکار کو الٹ اور غلط تفسیریں کرنے میں عار محسوس نہیں کرینگے اور ساتھ معاشرے کے عام افراد میں بھی مشکلات اور مصائب پر صبر اور برداشت کے بجائے شکوہ و شکایت کی سوچ آجائی گی اور ہمت و شجاعت کی بجائے ایک دوسرے پر حملہ کرنا اور قسمت اور تقدہر کے مسائل ابھارنے لگ جائے گے اسی و جہ لازم ہے داعی خود صبر اور صابروں میں سے ہوجائے تاکہ ان کا مقابلہ کرسکے چنانکہ امام علیؑ نے فرمایا’’الجزع لایدفع القدر ولکن یحبط الاجر ‘‘ مصائب کے مقابلہ میں جزع مقدر کو روک نہیں سکتا ہے لیکن ثواب کو ختم کرتا ہے ۔اس حدیث کے ذیل میں آقای مکارم لکھتے ہیں’’ کیوں بے صبری ثواب کو ختم کرتا ہے ؟اس کے بارے میں کہ سکتے ہیں:جزع اور بے صبری مقدارت الہی پر تسلیم نہ ہونے کی دلیل ہے اور حقیقت میں پالنے والے کے عدل اور حکمت پر اعتراض ہے گرچہ خود اس سے غافل ہو‘‘ [15]
صبر کے نمونوں پر توجہ
ایک اور غور طلب نکتہ جو داعی اللہ کے لیے لازم ہے وہ قرآن اور حدیث اور تواریخ میں صبر جو کے نمونے بیان ہوئے ہیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر ہم ان نمونے پر توجہ دیں تو معلوم ہوگا انسانی اس قافلہ میں حق کی طرف دعوت دینے والے کتنے ایسے افراد تھے جنہوں نے ہزاروں مشکلات اور آزمائش کو برداشت کرکے اس راستہ سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے اور ہم ایسے افراد جو سخت حالات کے باوجود حق پر قائم رہے ہو اور ثابت قدمی کا ثبوت دے چکے ہو زندگی کو دیکھے تو انسان کو مصائب اور مشکلات برداشت کرنا کا مادہ بڑھ جائے گا اسی وجہ سے قافلہ بشریت کو ایسے ہی رہنماووں نے ہدایت اور صحیح راستے کا پہچان کروایا ہیں اور مخصوصا انبیا کی زندگی حصول صبر کے لیے ہمارے لیے اسوہ ہے۔ ان کی داستان ہاے حیات اپنے اندر ہمارے لیے ایسی مثالیں رکھتی ہیں کہ جن سے ہمیں حوصلہ حاصل ہوتا اور بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ فائدہ دیتی ہے کہ ان سے ہمیں انسانی زندگی کی مثالیں اور اس میں صبر کے اطلاقات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ انبیا سے ہماری محبت ہمارے دلوں میں چونکہ ایک تقدس سا پیدا کرتی ہے ، جس وجہ سے ان کے واقعات اگر صحیح ہوں تو وہ بہت ہی زیادہ موثر بن جاتے ہیں جیساکہ آقای مکارم فرماتے ہیں’’ بزرگ شخصیات مخصوصا انبیا ؑ اور اولیا الہی کے جو صبر اور شکیبائی سے بلند مقامات تک پہنچ چکے ہیں مطالعہ کرنے سے (حصول)صبر کا انگیزہ بڑھ جاتا ہے جیسا کہ وہ ہر چیز میں نمونے ہیں ‘‘[16]
اسی طرح آقای انصاریان کتاب اسلامی عرفان میں اس حوالے سے لکھتے ہیں’’زندگی کے سارے جنبوں میں صبر اور استقامت کو انبیا ؑ و ائمہ ؑ اور اولیا سے سکیھنا چاہیے چونکہ یہی ہستیاں سارے امور مخصوصا صبر میں سب سے بہتر معلم اور رہنما ہیں ‘‘ [17]
اورپیغمبر ﷺ کے بارے میں امام خمینی فرماتے ہیں’’۔ ہر صورت میں آیت سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ریاضت،زحمت و مشقت برداشت کرتے تھے ،مفسرین کے مجموعہ کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے اگر چہ اس کی کیفیت میں اختلاف ہے اور یہ امت کیلئے سبق ہے ۔خصوصا ان اہل علم جو دعوت الی اللہ دینے چاہتے ہیں حضور سرورکائنات اتنی طہارت قلب اور کمال کے باوجود اتنی ریاضت کرتے تھے کہ آیت نازل ہوئی اور ہم اپنے إن تمام گناہوں اور خطاوں کے باوجود کبھی بھی اپنے انجام اور قیامت کے بارے میں غور نہیں کرتے ہیں‘‘[18]
اسی طرح علامہ طباطبائی ھبوط حضرت آدم ؑ کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر حضرت آدام ابولبشر زمین پر نہ آتے تو اپنے فقر و ناچاری ،احتیاج و ناتوانی اور نقص و کمی کو کیونکر سمجھ سکتے تھے؟اور اسی طرح اس حقیقت کا بھی ادراک کرسکتے کہ تکلیفوں ،مصیبتوں اورسختیوں کو جھیلنے کے بعد ہی خدا کی مقدس بزم اور پروردگار کی ہمسایگی کی پاکیزہ لذتوں سے لطف اندوز ہونا ممکن ہے‘‘[19]
قرآن اور احادیث میں مسلمانوں کے لیے بہت سے صبر کے نمونے پیش کیے گیے ہیں جنہوں نے سخت حالات میں انتہائی صبر سے کام لیا جیسا کہ آقای مکارم ا پنی کتاب اخلاق در قرآن میں لکھتے ہیں( پیغمروں میں سے ہر ایک میں ایک اخلاقی فضائل میں سے ایک خصوصی فضلیت درخشاں ہوتی تھی ۔حضرت ایوبؑ پیغمبروں میں سے زیادہ صبر کرنے والے کے طور پر پہچانا جاتا ہے ۔ آپ صبر کے نمونہ اور مشکلات کے مقابل میں استقامت کرنے والوں میں سے ہیں اسی وجہ سے آپ کے حالات سورہ ص میں جب مکہ میں مسلمان سخت مشکل میں تھے نمونہ کے طور پر بیان ہوئے ہیں اور مسلمانوں کو استقامت اور صبر کا درس دیا ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ آ پ کی زندگی قرآن کے چندین سوروں میں آیا ہے لیکن ان سب سے زیادہ سورہ ص میں آیا ہے ’’انا وجدناہ صابرا نعم العبد انہ اواب‘‘ [20]حضرت ایوبؑ امتحان الہی کی وجہ سے ایک بہت بڑی آزمائش سے گذر تا ہے کہ اس کے شکر گزاری کا مقام روشن ہوجائے اور پرودگار کے قریب تر ہو جائے اس کے متعدد جو اموال ، طاقتور بیٹے اور گوسفندتھے ایک امتحان الہی میں سبکو گنوا دیا اور خود بھی ایک سخت بیماری میں مبتلا ہوئے وہ اس قدر بیمار ہوئے درد کی شدت سے تڑب رہا تھا اسی وجہ سے اس درد اور بیماری کا اسیر ہوا مگر ان میں سے کوئی ایک بھی اس کے بارگاہ الہی میں شکرگزاری کو کم نہ کرسکیں۔ دشمنوں اور دوستوں سے بہت سے زخم زبان سننا پڑا شاید یہی سب سے بڑی مصیبت تھی ۔کبھی بنی اسرائیل کے زاہد اور عابد ملاقات کے لیے آتے تھے اور صریحا کہتے تھے آپ نے کونسا بڑا گناہ کیا تھا کہ اس بڑی عذاب میں مبتلا ہوئے ؟مگر آپ اس کے باوجود صبر کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتےاور شکر اور سپاس کے صاف چشمہ کو ناشکری اور کفران سے آلودہ نہیں کرتے تھے ۔آپ نے ایک مدت کے بعد تنہا یہ کام کیا بارگاہ الہی میں عرض کرنے لگا ’’واذکر عبدنا ایوب اذ نادی ربہ انی مسنی الشیطان بنصب و عذاب‘‘ جب اس عظیم پیغمبر ؑ نے اس ازمائش کے پورے مراحل کی تکمیل کی اور صبر و استقامت کے پہاڑ سے ان بہت بڑی مصائب کا مقابلہ کیا اور شیاطن کو مایوس اور شرمندہ کیا تو بارگاہ الہی کے دروازہ کھول دیے گیے نہ فقط بیٹے اور اموال واپس کیے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ اور ان سب سے مہمتر نعم العبد کے پر افتخار مقام پر فائز ہوئے ۔‘‘ [21]
یہی علت ہے کہ امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں’’ان الصبر و حسن الخلق والبر و الحلم من اخلاق الانبیاؑ‘‘صبر ،نیکی،حلم اور نیک سیرت انبیا ؑ کے اخلاق میں سے ہیں۔
آقای محلاتی اس حوالے سے ایک نہایت خوبصورت داستان نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں(امام صادق ؑ نے فرمایا:جب حضرت موسی ؑ لوگوں کے احوال پرسی کے لیے باہر چلے گیے تو ایک آدامی کے پاس پہنچا جو سب سے زیادہ عبادات کرتا تھا اس کے پاس رہا جب شام ہونے لگا اس نے ایک آنار کی درخت جو اس کے نزدیک تھی ہلانے لگا تو اس سے دو آنار گرا۔عابد نے کہا اے بندہ خدا آپ کون ہو؟تم ایک صالح انسان ہو چونکہ میں یہاں پر کئی سال سے زندگی کرتا ہوں یہ درخت ایک آنار کے سوا مجھے نہیں دیتی تھی اگر تو کوئی صالح بندہ نہ ہوتا تو یہ دوسرا آنار نہیں ملتا؟ موسیؑ نے فرمایا:میں ایک نفر ہوں جو موسی بن عمران ؑ کے سرزمین میں زندگی کرتا ہوں جب دوسرے روز ہونے لگا تو حضرت موسی ؑ نے اس سے پوچھا :کسی ایسے شخص کو جانتے ہو جسکا عبادات تم سے زیادہ ہو؟اس نے کہا:ہاں فلاں شخص !حضرت موسی ؑدوسرے شخص کے پاس چلے اور دیکھا کہ اس کا عبادات بہت زیادہ ہے یہاں تک کہ رات ہوئی اور اس عابد کے لیے دو روٹی اور پانی کا ایک ظرف لایا گیا عابد کہنے لگا اے آدامی تو ایک صالح بندہ ہو چونکہ سالوں سے زندگی کرتا ہوں ایک روٹی لاتے تھے اور آج تمہاری خاطر یہ دوسری روٹی بھی لایا گیا ہے اگر تو کوئی صالح بندہ نہ ہوتا تو ا س دوسری روٹی کو نہ لایا جاتا حضرت موسی نے وہی جواب دیا اور فرمایا:’’انا رجل اسکن ارض موسی بن عمران‘‘ اس کے بعد اسے پوچھا تم سے بڑھ کر کوئی عابد ہے؟کہا:ہاں فلان حداد جو کہ فلانی شہر میں رہتا ہے۔
موسیؑ اس آدمی کے پاس چلا گیا لیکن دیکھا کہ کوئی مہم عبادات انجام نہیں دیتا ہے بلکہ فقط ذکر خدا کرتا ہے جب نماز کے وقت ہونے لگا وہ آدامی اٹھا نماز کو پڑھا اور جب رات ہوئی تو دیکھا جو محصول کو ملتا تھا دو گِنا ہو ا ہے حضرت موسی ؑ سے کہنے لگا تم کوئی صالح بندہ ہو چونکہ میں سالوں سے یہاں پر ہوں جو محصول ملتا تھا ایک مشخص اندازہ تھا لیکن آج کی رات دو گِنا ہوا ہے۔ تو کون ہے؟حضرت موسی ؑ نے وہی جواب دیا اس کے بعد اس آدامی نے محصول کو تین حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ کو صدقہ دیا اور دوسرے حصہ کو خود کے غلاموں اور گھر والوں کو دیا اور تیسرے حصہ کو بھیج دیا اور کھانا لایا اور حضرت موسی کے ساتھ کھایا ۔
اس وقت حضرت موسی ؑ ہنسنے لگا اس آدامی نے ہنسنے کی علت پوچھی ؟موسی ؑ نے اُن دو مردوں کے پاس جانے کے واقعہ کو بیان کیا انہوں نے تمہارے پاس بھیجا ہے جب کہ میں نے ان دونوں کی طرح تمہیں نہیں پایا ۔اس مرد نے کہا میں غلام ہوں تم نے نہیں دیکھا کہ میں ذکر خدا کہہ رہا تھا صرف نماز کے ٹائم نماز پڑھتا ہوں اگر اس کے علاوہ نماز پڑھوں تو میرے مولی اور لوگوں کا کام رہ جائے گا اور نقصان ہوگا ۔ابھی اپنے شہر چلو گے ؟موسی ؑ کہنے لگا ہاں اُُس ٹائم بادل کا ایک ٹکرا جا رہا تھا اُس نے اس بادل سے کہا:قریب آجاو وہ قریب آیا پوچھا:کہاں جارہے ہو؟جواب دیا فلان سرزمین اسی طرح تین بار پوچھا اور تیسری بار کے بعد اُس بادل نے کہا موسی ؑ بن عمران کے سرزمین تو اس مرد نے کہا :اس آدامی کو آرام سے اٹھاو اور آرام سے موسی بن عمران کے سرزمین میں پہنچاو حضرت موسیؑ خود کے سرزمین پھنچا تو کہنے لگا پالنے والا یہ آدامی کیسے اس مقام تک پہنچا ہے ؟اللہ تعالی نے جواب دیا:’’اِنّ عبدی ھذا یصبر علی بلائی و یرضی بقضائی و یشکر نعمائی‘‘ [22]یہ میرے بندہ میرے آزمائشوں میں صبر کرتا ہے اور میرے قضا اور تقدیر پر راضی اور میرے نعمتوں پر شکر اور سپاسی کرتا ہے۔
[1] ۔ شرح چہل حدیث ،امام خمینیِ،ص۲۱۶۔۲۷۱۔
[2] ۔ چہل حدیث،ص۲۷۲
[3] ۔ ‘‘طباطبائی ،المیزان،ج۳،ص۳۶۸۔
[4] ۔ چہل حدیث،ص۳۲۴۔
[5] ۔ ‘انصاریان،حسین،عرفان اسلامی،ج۱۲،ص۳۲۸
[6] ۔ ‘‘چہل حدیث،ص۳۱۶
[7] ۔ چہل حدیث،ص۳۱۱
[8] ۔ چہل حدیث،ص۳۱۱)
[9] ۔ شرح غررالحکم،حدیث۴۴۹۔
[10] ۔ سورہ اسراء/ آیات: 32،31
[11] ۔ چہل حدیث،ص۱۴۷
[12] ۔ اصول کافی،ج۲،ص۳۵۲،کتاب ایمان و کفر،باب من اذی المسلمین ،حدیث۸)
[13] ۔ چہل حدیث،ص۶۶۴
[14] ۔ چہل حدیث امام خمینی،۶۴۲
[15] ۔ مکارم شیرازی،اخلاق در قرآن،ج۲،ص۹۸۶
[16] ۔ مکارم،اخلاق در قرآن،ج۲،ص۹۸۵)
[18] ۔ چہل حدیث،ص۴۱۴۔
[19] ۔ طباطبائی،المیزان،ج۱،ص۳۴۲
[20] ۔ سورہ ص / ۴۴
[21] ۔ مکارم شیرازی،اخلاق در قرآن ،ج۲،ص۹۲
[22] ۔ رسولی محلاتی،سیدہاشم،چہل حدیث،ج۱،ص۲۴)