زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

6۔ سونے کے کان میں کوئلے کی تلاش اکبرحسین فیاضی

سونے کے کان میں  کوئلے کی تلاش

تحرير: اکبرحسین   فیاضی

اگر ایک شخص برسوں سونے کے کان میں بیٹھ کر کوئلے اور پتھر جمع کرتے ہوئے سونے جواہرات سے غفلت بھرتتا رهے اور کان سے نکلتے وقت سوائے  پتھر اور کوئلے کے اسکے ہاتھ میں کچھ نه ہو جو اپنے خاندان کے سامنے پیش کرے تو هماری نظر میں اس شخص سے احمق اور بےخرد انسان دنیا میں  کوئی نهیں هوگا۔

هم بعنوان دینی طالب علم برسوں سے ایسے علمی جواہرات کے خزانوں میں زندگی بسر کرتے آئیں  ہیں جہان سے ہم علم کا نورزهد و تقوی کا ذر بی بها،حلم و بردباری کے خوشبودار پھول،عقائد،اخلاق،تاریخ،حدیث،فقه،فلسفه،تفسیر ، اور هزاروں دوسرے علوم کے دل ربا زیورات سےخود کو آراسته کرکے جہل و نادانی,فسق و فجور,تعصب قومی و لسانی کی بیماری کے شکار معاشروں اور لوگوں کا ہدایت و رشادت کی دواؤں سے علاج کرکے مسیحائی،پیامبری اور رهبریت عظمی کی منزلت پر نائل هوسکتے ہیں۔

لیکن ہم میں سے اکثر دنیا کی رنگینیوں میں مگن ان‌علمی خزانوں میں بیٹھے علم کا چراغ لیکر رشد و هدایت کی موتیوں کو جمع کرتے ہوئے اپنی اپنی روحوں کو تقوی اور پرهیزگاری کی روشنائی سے منور کرکے ہادیان دین کی منزلت تک پہنچنے کے بجائے۔

زن و زر،مال و دولت،عیش و راحت،شهرت و شهریت,مکان و مقام جیسے ضلالت و گمراهی کے پتھروں اور بے خاصیت کوئلوں کو جمع کرنے میں اپنی عمریں گزارتے ہوئے  نه صرف علم کے چشمئے  زلال سے کوسوں دور رہتے ہیں بلکہ نئے آنے والوں کیلئے بھی باعث فتنه بنتے جا رہے ہیں جسکے سبب نہ صرف معاشرے کیلئے  ایک مفیدفرد بننے  میں ناکام ہوتے ہیں بلکہ اپنی اور اپنی اولاد تک کی ہدایت کرنے سے ہم قاصر رہتے ہیں۔  جن کی تفصیلات سے ہم سب آشنا هیں۔

ہمیں یه بات نهیں بھولنی چاهیے که مغربی ممالک میں لوگوں کی دین گریزی،سکیولر طبقات کے رشد و پرورش  کے اسباب و علل میں سے مؤثر ترین سبب علما کا جاہلانه کردار و رفتار اور اور انکے قول و فعل میں کھلا تضاد کا نظر آنا تھا۔

مغربی معاشروں میں دین ذدائی کے علل و اسباب

جب هم مغربی معاشروں میں دین ذدائی کے علل و اسباب کا مطالعہ کرتے ہیں تو یهودی  اور عیسائی کشیش اور پادریوں میں

 مندرجہ ذیل  چند  چیزیں سامنے آتی هیں ۔

1-شرارت و گناہ عام اور تقوی انکے درمیا ن سے ناپید ہوچکا تھا۔

2-لذت عبادت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

3- شادیوں کا رواج انکے درمیان منع هونے کے باوجود عام ہوتا جارہا تھا جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ کس قدر جنسی شہوات کے اسیر ہوچکے ہیں۔

4-کشیشوں میں پیسے جمع کرنے, مال بنانے,زمینیں خریدنے میں رقابت معمول بنتا جا رها تھا۔

5-علما کے غلط کردار و رفتار سے نفرت کی وجه سے دین سے گریزاں جوانوں میں روز افزوں اضافه هوتے جارهے تھے۔ یہاں تک کہ لوگ اس عالم سے بھی نفرت کرنے لگے تھے جو پرہیزگاری میں یگانہ ی روزگار ہوتا تھا۔

6-شرارت اور گناہ انکے درمیان آذادی سے انجام پاتے  تھے۔

7-دوسروں کو کلیسا کا مال اور بیت المال کے کھانے سے منع کرتے اور کھانے والوں کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے ۔(جیسے  ہم ذاکرین پر تنقید کرتے ہین که یه مجلس پڑهنے کے پیسے لیتے ہیں)  لیکن کشیش اور پادری نہ صرف خود  کلیسا کی آمدنی سے مستفید ہوتے رہتے تھے بلکہ نسل در نسل اسی زریعے سے کھاتے رہتے تھے چاہے انکا معاشرے میں کوئی رول نه بھی ہو۔

8-ریاضت،عفت،زهد جیسے الفاظ سے نا آشنا تھے لیکن لوگوں سے انھی امور کی امید رکھتے  تھے۔

9-معاشرے کی بگاڑ پر ماتم کناں رہتے تھے لیکن عیش و راحت,زن و فرزند عملا اصلاح معاشرےکیلے کردار ادا کرنے میں رکاوٹ بنے رہتے تہے....

10-اگر چه‌ خداوند عالم"لولا ينهاهم الربانيون" کی توبیخ کے زریعے لوگوں کی برائیوں اور منکرات کے مقابلے میں  علماء کی خاموشی اور سکوت پر انکی مذمت کر رها تھا۔ لیکن معاشرے میں چرس,شراب,بے پردگی,بےحیائی،فسق و فجور،ظلم و ستم،عصمت دری،چوری ڈکیتی،فتنه و فساد عام هونے کے باوجود علما میں سے کچھ ان فسادات میں حصه دار بنے ہوئے تھے اور کچھ ایسے آنکھیں بند کئے بیٹھے تھے جیسے کچھ بھی نہ ہو رہا ہو۔

11-دین کے نام پر دنیا بنانے کا کام زور وں  پر  تھا۔

13-لوگوں کو خدا کی طرف بلانے کے بجاے اپنی یا اپنے حذب کی طرف بلانے میں مصروف تھے تاکه "ليتخذوهم اربابا مں دون الله" کے ہدف تک رسائی هو۔

14-اور کچھ نے دین خدا میں سے جو کچھ سیکھا تھا اسی کو معاش کا ذریعہ قرار دیکر  "يشتروں بآيت الله ثمںا قليلا"  کا مصداق بنے ہوئے تھے۔

14-لوگوں کو بہشت کی طرف دعوت دیتے تھے لیکن  خود انکا بھشت پر اعتقاد ںہیں تها!  اگر اعتقاد ہوتا تو عمل کے زریعے حصول جںت کیلے کوشاں ہوتے۔

15-زهد پرهیزگاری حقیر مال و دولت مایه ی عزت سجھنا عام سی بات ہوگی  تھی۔

16-کشیش کو بیںواوں کاباپ ہوںا چاہے تھا لیکں وہ لذیز غداؤں کے حریص اور نرم و گرم لباسوں کے عاشق بنے ہوئے تھے۔

17۔ مذهبی برناموں,نماز صبح اور دوسری عبادات کا اجرا پادریوں سے منت و سماجت اور انکی مزدوری ادا کیےبغیر ممکن نهیں رها تھا۔

18-پادریوں میں میثاق شکنی،دوکہہ بازی,جھوٹ عام ہوچکا تھا۔

20-بڑے اور مجلل گھروں میں رہنا،فاخرانه لباس پهننا،امرا سے نزدیک غریبوں سے دور رہنے میں خوف خدا کا خیال رکهنا چهوڑ دیے تھے۔

22-زهد پرهیزگاری کو خوار سمجھتے ہوئے جسمی شهوتوں کو روحانی ضرورتوں پر ترجیج دینے لگے تھے۔

23-روحانی لباس میں هونے کے باوجود روحاںیت سے  دور  تھے۔

24-لوگوں کو خدا پرتوکل کی تلقیں کرتے تھے لیکں اںکو خداسے ذیاده لوگوں کی نذورات،کلیسا کی آمدنی اور بادشاهوں کے عطاؤں پر اعتماد تھا۔

جب یه تمام سکیولرانه اعمال پادریوں سے مشاہدہ کیے تو لوگ اس طرح دیں سے دور ہوتے ہوے سقوط و انحطاط اخلاقی کا شکار هوے کہ آج کا انساں دیکھ کر حیوانات‌بهی شرما جائے۔

کیا یہ علامات ہم میں بھی ہیں یا نہیں؟

اب هم نے یہ دیکھنا ہیں کہ کیا یہ علامات ہم میں بھی ہیں یا نہیں؟ تو قسم کها کر کها جاسکتا هیں که هم میں سے کچھ کا کردار کشیشوں سے بھی بدتر ہوتا جارہا ہے صرف رخ سے پردہ اٹھنے کی دیر ہے جس دن مجھ جیسے علماء کے بیس میں موجود کالی بھیڑوں کے چہرے سے روحانیت نما شیطانی چهره نمایاں هوگا اس دن دین کے نام پر جمع کرده پتھر اور کوئلے ہمیں رسوائی سے نہیں بچا پائینگے ہمیں علماء ربانی بننا ہوں گے ورنہ علماء شیطانی کے صف میں داخل هوکر قران مجید کی ان آیتوں کا مصداق بنیں گے جں میں بے عمل علماء کی اس طرح توهین ہوئی هیں که جس طرح کافر و منافق کی بھی  اهانت نهیں هوئی هیں۔

که ایک جگه قرآن بے عمل عالم کو کتے سے تشبیہ دیتا ہیں۔ جیسے: " فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ "دوسری جگه گدھے سے تشبیہ  دیتا ہیں جیسے:"كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا "

خدا هم سبکو علمائےعاملین میں  سے قرار دے۔آمین