■ 2۔ اسلامی مناسبات محبوب علی جوہری
■ 3۔ دعوت دین اورصبر زاہدحسین زاہدی
■ 4۔ انوارہدایت ذاکرحسین ثاقب
■ 5۔ قیام امام حسین ؑ کا عرفانی پیغام اشرف حسین صالح
■ 6۔ سونے کے کان میں کوئلے کی تلاش اکبرحسین فیاضی
■ 7۔ حضرت زہراء(س)کی فضیلت مرتضی حسین مطہری
■ 8۔ دعا عبادت کامغزہے ۔ سیدعادل علوی(مدظلہ)
■ 9۔ نقالوں سے ساؤدھان! عظمت علی
■ 10۔ بے عطوفت ماؤں کی آغوش محمد علی جوہری
- حج کے اسرار اور معارف
- مجلہ عشاق اہل بیت 18و19۔ربیع الثانی1439ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 16و17۔ربیع الثانی1438ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 14و 15 ۔ ربیع الثانی 1437 ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 12و 13۔ربیع الثانی 1436ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 11-ربیع الثاني1435ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 10-شوال 1434ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت9۔ربیع الثانی 1434ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 8- شوال۔ 1433ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 7۔ محرم ،صفر، ربیع الاول ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 6۔شوال ،ذیقعدہ ، ذی الحجہ ۔1420ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 5۔ رجب ،شعبان، رمضان ۔1420ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 4۔ رجب ،شعبان، رمضان ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 3۔ ربیع الثانی،جمادی الاول، جمادی الثانی ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 2۔ محرم،صفر ، ربیع الاول ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 1۔ شوال ،ذی الحجہ 1414 ھ
- خورشیدفقاہت
حضرت زہراء(س)کی فضیلت
اور فدک تاریخ کی روشنی میں
تحریر: مرتضی حسین مطہری
قال الله عزوجل:"بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ انا اعطيناك الكوثر فصل لربك وانحر ان شانئك هو الابتر"
خداوندعالم قرآن مجید میں ارشار فرمارہا ہے :اے پیغمبر ص ہم نے تجھے کوثر عطا کیاہے پس آپ اپنے پروردگار کیلے نمازپڑھ اوراس کی راہ میں قربانی دے بیشک آپکا دشمن ہی ابتر ہے۔
کوثر :کثرت سے نکلا ہے کوثر فوعل کے وزن پر ہے جس کا معنی ہے بہت زیادہ جس کا ایک عظیم مصداق حوض کوثر اور وجود حضرت زہراء سلام اللہ علیہا بھی ہے۔
پیامبر اسلام ص کے جناب خدیجہ سے دو فرزند تھے ایک کا نام قاسم دوسرے کانام طاہر جنہیں عبد اللہ بھی کہا جاتاہے دونوں کا انتقال مکہ میں ہوا تو مکہ کے بڑےمعاندین جیسے ابولہب ابوجہل اور عتبہ نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ محمد لاولد ہے جب وہ دنیا سے چلے جاییں گےتو اس دین کا نام مٹ جاییگاجس پر خداوند عالم نے اپنے محبوب پیغمبر کو تسلی دینے کےلیے، رسول کی دلداری کے لیے،رسول کو اپنی رحمت الہیہ سےمایوس نہ کرنےکیلے اور رسول کو یقین دلانے کے لیے یہ نوید اور خوشخبری سنایی کہ اے پیغمبر ہم نے تجھے کوثر عطا کیا ہے آپ ابتر نہی بلکہ آپکا دشمن ہی ابتر ہے
فخررازی نے اپنی تفسیرالکبیر میں ،علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی تفسیر الدُرّ المنثور میں ،ابن عطیہ اندلسی نے اپنی تفسیر المُحرّرُ الوَجیز فی تفسیر الکتاب العزیز میں اور دیگر تفاسیر اہلسُنت ان مطالب سے پُر ہیں کہ کوثر سے کیا مراد ہے ،بعض نےکوثر سے مراد خیر کثیر لیا ہے بعض نے قرآن،بعض نےشفاعت اور بعض نے رسالت مراد لیے ہیں لیکن صاحب تفسیر المیزان علامہ محمد حسین طباطبایی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ تمام تفاسیر دُرست ہیں لیکن حقیقت تفسیر کوثرکیا ہے معلوم ہیں؟وہ آخری آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انّ شانئک ہو الابتر .اے رسول ص مایوس ہونے کی ضرورت نہی ،اے پیغمبرآپ کے جبین رسالت پر ناراضگی کے لکیر نمودار ہونے کی ضرورت نہی ،ہم نے تجھے کوثر عطاکیاہے آپ ابتر نہی بلکہ آپکادشمن ہی ابتر ہےلذا آخری آیت پہلی آیت کی تفسیر کررہی ہے جس میں ارشاد ہوتا ہے عرب کے بت پرست لوگ جوپیغمبر کو مقطوع النسل کہتے تھے جب پیغمبر ص نےیہ سنا تو فکر کے زانو پر سر رکھ کرفکر کرنےلگے تو اسوقت خداوند عالم نے سورہ کوثر نازل کیااور کہا اے رسول مایوس ہونے کی ضرورت نہی ہم یہ جو کوثر تجھے عطا کررہے ہیں زہراء کی شکل میں یہ اُن بدبختوں ،بےدینوں اوران کفار قریش کے لیے دندان شکن اور منہ توڑ جواب ہے جو آپ کو مقطوع النسل اور لاولد کہتے ہیں.
اس میں کویی شک وشبہ نہی کہ خداوند عالم نےجس قدر خیر کثیر سے اپنے رسول کو نوازاہے اتُنا کسی اور کو نہی نوازا انتہا یہ ہےکہ انکے دشمنوں کو ابتر بنایا اور ان کی نسل کومنقطع کرکے پیغمبر اسلام کی نسل کوفاطمة الزهراء کے ذریعے قیامت تک کیلے باقی اور دائمی بنادیا. فخر رازی کہتا ہے کہ دیکھو !اہلبیت کے کتنے افرادشہید کردے گےپھر بھی آج دنیا ان کی نسل سے پُر ہے لیکن بنی اُمیہ کا کویی بھی فرد قابل ذکر نہی ہے.
خداوند عالم نے اپنے رسول سے نماز اور قربانی کا مطالبہ کیا جو اس بات کی دلیل ہے جب انسان کے لیےکویی خیر کثیر اور نعمت مل جاے تو اسکا یہ فرض بنتا ہےکہ وہ شکر خدا بجالاے اورشکر خدا بجالانے کا بہترین طریقہ یہ ہےکہ وہ نماز قائم کرےاور راہ خداوندی میں قربانی دے
پیغمبر اسلام ص جناب سیدہ کی عظمت اور انکا مقام بیان کرتے ہوے جناب سلمان سے فرماتے ہیں *يا سلمان من احب ابنتي فاطمة فهو في الجنةاےسلمان جو میری بیٹی فاطمہ سے محبت رکھے گا اس کی جایگا بہشت ہے *ومن ابغضها فهو في النار*جو میری بیٹی سے دشمنی رکھے گا وہ جہنمی ہے *يا سلمان حب ابنتي فاطمة ينفع يوم القيامة في مأة مواطن ايسر تلك المواطن الموت والقبر ولصراط والمحاسبة*اے سلمان !میری بیٹی فاطمہ کی محبت قیامت کے دن سو مقام پر کام آےگی ان میں سے جو آسان ترین موارد ہیں وہ موت ہے ،موت کے وقت زہراء کی محبت کام آے گی قبر میں ،پل صراط سے گزرتے وقت ، اور حساب و کتاب کے وقت جناب سیدہ کی محبت فایدہ دےگی *يا سلمان من رضيت عنه ابنتي فاطمة رضيتُ عنه ومن رضيتُ عنه رضي الله عنه ومن رضي الله عنه فهو في الجنة* اے سلمان جس پر زہراء را ضی ہو تواس پر میں راضی ہوتا ہوں اور جس پرمیں خوش ہوں تو اس پر اللہ خوش ہوتا ہے اور جس پر اللہ خوش ہو تو اس کی جایگاہ بہشت ہے لیکن جس سے میری بیٹی ناراض ہو تو اس پر میں ناراض ہوتا ہوں اور جس پر میں ناراض ہوں تو اس پر اللہ ناراض ہوتا ہے اور جس پر اللہ ناراض ہو تو اسکا ٹھکانہ دوزخ اور جہنم ہے اس کے بعد فرمایا : "یاسلمان ویل لِمن یظلمھا ویظلم ذریّتَھا ویَظلمُ شیعتَھا" اے سلمان وای ہو اس پر جو زہراء مرضیہ سلام اللہ علیہا پر ظلم کرے ،ان کی ذرّت پر ظلم کرے اور ان کے چاہنے والے محبین اور شیعوں پر ظلم کرے.
پیغمبر اسلام ص کی رحلت کےبعد دشمنوں نے حکومت و سلطنت کی لالچ میں آکر دختر پیغمبر پر اتنی مصبتیں ڈھایی گیی جن کا تحمل زمین وآسمان کو نہ ہونے کااعتراف خود حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے کیا ہے آپ فرماتی ہیں کہ مجھ پر اتنی مصیبتیں ڈہایی گیی اگر یہ مصیبتی اور مشقتیں دنوں پر پڑھ جاتی تو دن رات میں تبدیل ہو جاتا پیغمبر کی یہ حدیث کہ جس میں آپ ص نے فرمایا جس نےفاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا ہے اس حدیث سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں جو پیغمبر اسلام پر اعتقاد کا دعویدار ہو ساتھ ہی ساتھ دولت سراے حضرت زھرا پر حملہ بھی کرے تو وہ کیسے مسلمان ہو سکتا ہے
پیغمبر اسلام نے دنیا کے تمام حقایق سےحضرت زہراکو با خبر کیا تھا ،فرشتے اور خداپرست بندےحضرت زہراء کی خدمت کرنے کو باغث فخر اور باعث نجات اور سعادت سمجھتے تھے جناب سیدہ نے پورے 75یا ,95روز تک رونے کو اختیار فرمایی تاکہ صحابہ کی طرف سےڈھاے گے مظالم پوری تاریخ بشریت میں ثابت رہے اور صحابہ کی منافقت بے نقاب ہو کر ایک غاصب کی شکل میں قیامت تک آنے والی نسلوں کےلیے نظر آے اگر جناب سیدہ کا رونا نہ ہوتا تو آج جس طرح جناب سیدہ کو ہم ایک مظلومہ کی حثیت سے پہچانتے ہیں اسطرح ان کی شناخت نہ ہوتی جس طرح دور حاضر کے بے انصاف اہل قلم والوں نے فریقین کی کتابوں میں واضح اورروشن دلایل ہونے کے باوجود زہرا مرضیہ پر ڈہاے گےمظالم کو ایک جھوٹ اور بہتان سے تعبیرکرتے ہیں یہ سراسر جناب سیدہ پر ایک ظلم ہے۔
حضرت زہراء پر پیغمبر خدا ص کی وفات کے بعد صحابہ کی طرف سے ہر قسم کی پابندیاں عاید کر دی گیی جیسے فدک کا غصب کرنا یہ ایک اقتصادی پابندی تھی ، امامت کاچھننا یہ ایک سیاسی پابندی تھی اورگھر پر حملہ کرکے دروازے کو جلانا یہ ایک خاندانی فضیلت و شرافت کی پایمالی تھی.
ہر ظالم و جابر حکمرانوں کی سیرت اور سیاست اب تک یہی رہی ہے جب کسی ملک اور شہر پر قبضہ جمانا چاہتا ہے تو فورااس ملک یا شہر کے مرکزی کردار انجام دینے والے سرمایہ داروں پر قابض ہونے کی کوشش کرتا ہے تاکہ دوسروں کی ہلپ اور مدد نہ کر سکے۔
تاریخ گواہ ہے کہ بہت سے بے گناہ افراد کو ہر ظالم و جابر حکمرانوں کے دور میں سرمایہ دار ہونے کے جرم میں ہر طرح کی پابندی عاید کرکےان کو حکومت سے بے دخل کر دیا گیا تاکہ ان کی اقتصادی پالسیوں میں ترقی نہ ہو اور اپنی حکومت اورتسلط کے لیےمانع نہ بن سکے تبھی تو حضرت زہراء کو اپنے حق سے محروم کر کےفدک جیسے عطیہ کوغصب کر کےان پر اقتصادی پابندی لگایی تاکہ حضرت زہراء حکومت اور اسلام سے بے دخل کرسکے امام صادق ع فرماتے ہیں : جب ابا بکر کو حکومت و خلافت مل گی اور مہاجرین و انصارسے بیعت لی گی تو اس نے ایک شخص کو باغ فدک بھیجا تاکہ جناب سیدہ کے ملازمیں اور کارگران کو وہاں سے نکال دے اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ باغ فدک پیغبر ص نے اپنی حیات میں ان کو دیا ہواتھا نہ کہ بعد میں فجائت فاطمةُ الی ابی بکرٍ جناب سیدہ ابا بکر کے پاس آیی اور کہا اے ابابکر تم نے کیوں مجھے اپنے بابا کی ارث سے محروم رکھا اور میرے کارگران کو باغ فدک سے کیوں نکالا ؟درحالیکہ باغ فدک میرے بابا پیغمبر اکرم ص نے حکم الہی سے مجھے بخشا ہے اسوقت ابابکر نے کہا اگر معاملہ ایسا ہے تو اپنا ادعا ثابت کرنے کےلیے مجھے گواہ چاہے حقیقت میں دیکھا جاے تو گواہ ابابکر کو لانا چاھے تھا کیوںکہ وہ خود مدعی ھے اور جناب سیدہ مدعی علیھا اور صاحب ید ھیں لیکن ہیاں پر وہ پیغمبرص کے فرمان کی مخالفت کرتے ھوے جناب سیدہ سے گواہ طلب کررھا ھے پیغمبر ص نے فرمایاتھا :*البیّنة علي المدعي واليمين علي من انکر* بینہ مدعی پر ھے اور یمین اور قسم منکر پر ھے لیکن ابا بکر پیغمر ص کے فرمان کی مخالفت کرتے ھوے جناب سیدہ سے کہہ رھا ھے ھاتی علی ذالک بشھودٍ ادعا کو ثابت کرنے کے لیے گواہ چاھے پھر بھی جناب سیدہ جناب امّ ایمن کو گواہ کےطور پر لاییں*( امّ ایمن پیغمبر ص کی کنیز تھی بعد میں ان کو خدا کی راہ میں آزاد کیے امّ ایمن کا اصلی نام برکة بنت ثعلبه تھا برکہ آزاد ھونے کے بعد ان کی شادی عُبید خزرجی سے ھویی اور اس سے ایک بیٹا ھوا اور اسکا نام ایمن رکھا اسی دن سے اسی کنیت سے یاد کرنے لگے کچھ عرصے بعد ان کے شوھر کا انتقال ھوا .ایک دن پیغمبر ص نے امّ ایمن کے متعلق فرمایا تھا :اگر کوی زن اھل بھشت سے شادی کرناچاھتا ھے تو وہ امّ ایمن سے کر لے اسقدر باکرامت اور عظمت والی خاتون تھی بھت ساری آیات و روایات حفظ تھی جنگ بدر اوراحد میں زخمیوں کو علاج کرنا اپنے ذمہ لی ھویی تھی ،اسلام کی ترویج کے حوالے سے ان کی کافی خدمات ھیں*)*
خلاصہ کلام جناب زھراء نےاُمّ ایمن کوگواہ کے طور پرلاییں ام ایمن نے ابابکر سے کہا اے ابا بکر میں اسوقت تک گواہ نھی دونگی جب تک تجھے پیغمبر کے فرمان کی طرف متوجہ نہ کراوں .کیا پیغمبر نے میرے بارے میں نھی فرمایا تھا؟کہ ام ایمن زن اھل بھشت میں سے ھے در حقیقت جناب ام ایمن ابا بکر کو یہ کہنا چاھتی تھی کہ زن اھل بھشت کبھی بھی جھوٹ نھی بولتی اور اس کا گواہ سچ اور عین حقیقت ھوتا ھے ، تو اس نے ھاں میں جواب دیا اب اس سے اقرار لینے کے بعد ام ایمن نے کہا میں گواھی دیتی ھوں کہ خداوند عالم نے جب اپنے پیغمبر ص پر وحی کی *وآتِ ذاالقربی حقہ* توپیغمبر ص نے اس آیت کی وضاحت طلب کی تو جناب جبراییل نے کہا وات ذاالقربی سے مراد جناب سیدہ ھے تو پیغمبر اسلام نے حکم الھی سے باغ فدک جناب سیدہ کو دے ھیں اسی دوران جناب امیر المؤمنین ع بھی تشریف لایے اور ام ایمن کی طرح جناب سیدہ کے حق میں گواھی دی اس مقام پر ابابکر مجبور ھوا جناب سیدہ کے حق میں فیصلہ کرنے پرفَکتبَ لھا کتاباً ودفَعه الیھا فیصلہ نامہ لکھنے کے بعد جناب سیدہ کے حوالہ کیا اسی دوران حضرت عمر داخل ھوا اور ابابکر سے کھا آپ نے کیا لکھ کر دیا ھے تو اس نے کہا فقال انّ فاطمة ادّعت فی فدک وشھدت امّ ایمن وعلیّ فکتبتُه لها اس نے جواب میں کہا زھرا نے باغ فدک کے بارے میں دعوای کیا اور اپنے دعوای کو اثبات کرنے کے لیے ام ایمن اور حضرت علی ع کو گواہ کے طور پر لاییں اور انھوں نے ان کے حق میں گواھی دے دی تو میں نے ان کے حق میں فیصلہ صادر کیا ھے یہ سُننے کے بعد روایت کا جملہ ھے فأخذَ عمرُ الکتاب فتفّلَ فیه ومزّقه وقال ھذا فیء للمسلمین حضرت عمر نے جناب سیدہ کے ھاتھ سے فیصلہ نامہ کو چھین لیا ، اس پےتوک کیااور اس کو پھاڑ دیا اور کہا زھرا ! یہ بیت المال ھے پس جناب سیدہ ان دونوں سے ناراحت اور مخزون ھو کر گریہ کرتی ھویی نکل گیی اور اس کے لیے بددعا کی.اور کہا مزّق الله بطنَکَ کما مزّقتَ کتابی اے عمر جس طرح تو نے میرے فیصلہ نامہ کو پھاڑ دیا ھے اسی طرح خدا تیرے پیٹ کو پھاڑ دے کئی مدتوں بعد جناب سیدہ کی بددعا درگاہ الہی میں مستجاب ھوتی ھے اور وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتا ھے لذا مظلوم کی دعا کبھی بھی درگاہ الھی میں رد نھی ھوتی .
.جناب سیدہ کویی معمولی شخصیت نھی ھے بلکہ وہ تاریخ بشریت کی برترین شخصیات میں سےایک ھے
*شھید باقر الصدر علیہ الرحمہ فرماتے ھیں* فاطمہ میدان عمل کیطرف چلیں اُس عالم میں کہ ان کے دل میں محمدی قوانین ،علوی شجاعت ،خدیجہ کی روحانیت اور اُمّت کی شفقت و ھدایت کا جذبہ تھا
*دوسری پابندی*
یہ تھی کہ جو اقتصادی پابندی سے پھلے پیغمبر اسلام ص کی وفات پاتے ھی تجھیز و تکفین سے قبل سقیفہ کی شکل میں عاید ھویی یہ پابندی اقتصادی پابندی سے کئی گنّاہ حضرت زھراء پر سخت گزری .
*تیسری پابندی خاندانی شخصیت پر پابندی تھی*
جب پیغمبر ص کی روح پرواز کر گیی تومسلمانوں نےحضرت علی ع اور حضرت زھرا سلام اللہ علیھما کی شخصیت اور خاندانی فضیلت کو پایمال کر دینا شروع کردیا ، یھی وجہ تھی کہ مسلمان آگ اور زنجیر لےکر در زھرا پر دقّ الباب کرنے کی جرأت ان میں پیدا ھویی.
*منابع*
1۔ تفسیر قرآن علامہ ذیشان
2۔ شرح خطبہ فدک ایة الله منتظري
3۔ مناقب حضرت زھراء(س)
4۔ بحار الانوار۔
5۔ میزان الحکمہ۔