زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

10۔ بے عطوفت ماؤں کی آغوش محمد علی جوہری

بے  عطوفت ماؤں کی آغوش میں پروان چڑھتے بچے

تحریر: محمد علی جوہری

عام طور پر جب بھی محبت کی مثال پیش کی جاتی ہے تو وہ ماں کی مامتا  کی ہوتی ہے ، ماں کی مامتا  ہر غم کا مداوا ہے اسی   لئے  ہر دکھ  اور  تکلیف میں اولاد کو ماں ہی یاد آتی ہے، کیونکہ ماں کی مامتا میں کوئی غرض پوشیدہ نہیں ہوتی، ماں اپنی وفائوں کا بدلہ نہیں چاہتی اور یہی وجہ ہے کہ ممتا جیسی نعمت کی نہ مثال ہے ،  نہ ہی کوئی نظیر اورنہ ہی اس کا کوئی نعم البدل ، حقیقت میں  خالق کائنات نے انسان کے سامنے ماں کو اپنی محبت کا مظہر بناکر بھیجا ہے  اسی  لئے   ماں کی ممتا   مرکز تجلیات اور سر چشمہ حیات ہے  ۔

لیکن  بسا اوقات   ماں کی مامتا کو کس کی نظر لگ جاتی ہے کہ  وہ  خود غرضی کا شکار ہوکر اتنی سفاک ہوجاتی ہے  کہ اپنے بچوں کے ساتھ ایسا رویہ اپناتی ہے کہ گویا وہ  انکی  سوتیلی ماں ہوں  ، اس کی ایک عجیب مثال  اس وقت میں نے  دیکھی جب  میں راستے سے گزر رہا تھا  کہ اچانک میری نظر ایک خاتون پر پڑی جو  میرے آگے جارہی تھی اور پیچھے  تقریبا اس کا  تین سالہ بچہ گریہ کرتےہوئے اپنی ماں کو پکارتے پکارتے  کئی مرتبہ ٹھوکر کھاکر زمین پر گرا  مگر ماں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور اس نے ایک مرتبہ بھی مڑکر پیچھے کی طرح   دیکھنا گوارا  نہیں کیا ، یہ منظر دیکھ  کر مجھے بہت حیرت ہوئی  کہ آخر ماں کی مامتا اور عطوفت کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ اپنے ننھے  سے بچے کی طرف پلٹ کر پیچھے  دیکھنے کی  زحمت بھی نہیں کرتی   ؟ جب میں نے قریب جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ماں کے ہاتھ میں سمارٹ موبائل ہے جس سے وہ گیم کھیلتی  جارہی ہے اور اسے اپنے  پچھے  آنے والے  کمسن بچے کی کوئی پرواہ نہیں  ، یہ دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا  اور میرے ذہن  میں یہ سوال  گردش کرنے لگا کہ  آخر ایک ماں بھی اس قدر بے حس ہوسکتی ہے کہ سمارٹ موبائل کے معمولی سے گیم پر اپنے معصوم بچے کو قربان کردے ؟  جبکہ  ہم بچپن سے سنتے آرہے تھے کہ ماں اپنی اولاد کیلئے سب کچھ  نچھاور   کرنے کیلئے تیار ہوتی ہے لیکن یہاں تو بالکل  منظر بر عکس نظر آرہا  تھا ۔

  یہ تو ہمارے مشاہدے میں آنے والی  ایک زندہ  مثال تھی  اس کے علاوہ  بھی بہت سی  مثالیں  ہمارے سامنے  ہیں جہاں بہت سی  مائیں  اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے   اولاد کی  تمام تر آرزووں کو  پامال کرتی دکھائی دیتی ہیں ،یہاں تک  کہ تعلیم کے حصول کے نام پر   بچوں کی تعلیم کو   بھی اپنی تعلیم کیلئے قربانی کا بکرا  بنا دیتی    ہیں   ۔خیر جو بھی ہویہاں  یہ بات بیان  کرنا مقصود نہیں کہ ماں کی مامتا  کو کس کی نظر  لگ گئی ہے  اور   کن شرپسند  عناصر نے اس  قیمتی  جوہرپر ڈاکہ ڈالا ہے  جس کے نتیجے میں وہ بے عطوفتی کا شکار ہوگئی ہے،   تاہم اس کی وجوہات جو بھی ہو مگر ایک بات مسلم ہے کہ  جہاں بہت سی دوسری چیزوں کا جنازہ  نکلتا  ہے    وہی ماں کی مامتا کا بھی جنازہ نکل سکتا  ہے  ، اس کی واضح دلیل اس  دودھ پیتے بچے کی ہے جو شدت بھوک سے  تڑپ کر مرجاتا ہے  مگر  ماں کروٹ بدل کر دودھ پلانے کیلئے تیار نہیں  ہوتی  ، یا پھر وہ  بچہ جو  ماں کو سمارٹ موبائل  میں  بڑے   لگن  کے ساتھ کھیلتے  دیکھ کر، سمارٹ موبائل ہونے کی آرزو کرتا ہے ، یا پھرکسی فنکشن میں شرکت کی غرض سے پہنے  کپڑوں پر بچوں کے  ہاتھ لگنے  سے بچنے کیلئے ماں    بچے کو دیوار سے مارکر موت کی آغوش میں بھیجتی ہے ، یہ سب عطوفت مادری کے مردہ ہونے کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے؟   کیا ایسی ماؤں کے پاؤں تلے جنت ہوسکتی  ہے؟  بہر حال ایسی  بے عطوفت ماوں کی آغوش میں پروان چڑھنے والے بچے  بڑے ہوکر سماج میں   کونساکردار ادا کرسکتے ہیں؟ ماں کی گود میں   پنپنے کے باوجود مدرسہ محبت سے ناآشنا  لوگوں سے مہر و محبت کی توقع کیسی کی جاسکتی ہے ؟ اور ایسے بچے معاشرے میں اپنی ساکھ کو دائمی  طور پرکیسے بحال کرسکتے ہیں ؟   اور  رحمت خداوندی کے آستاں سے محروم  بچوں سے والدین  کی  خدمت  کی  امید کیسے کی جاسکتی ہے  ؟ یہ چند ایک سوالات ہیں  جو بے عطوفت ماؤں کی آغوش میں پروان چڑھنے والے بچوں کے حوالے سے  ہر ایک  کے ذہن میں آسکتے  ہیں  اور ان سوالوں  کا جواب کیا ہوسکتا ہے ؟ وہ اپنی جگہ ،  مگر اس سے پہلے  ہمیں  ماؤں کی بے  عطوفتی  کا علاج درکار ہے جن کی   مثالی   محبت کو موت کا مرض لاحق ہوگیا ہے   جو مداوا نہ ہونے کی صورت میں  عنقریب اسکا جنازہ نکل سکتا ہے     اورخدا نخواستہ  اسلام دشمن عناصر ، ماؤں کی عطوفت کو نشانہ بنانے اور اس مقدس آغوش کے قیمتی جوہر کو چرانے میں  کامیاب ہوگئے     تو  مستقبل میں ہمارا معاشرے کا کیا حشر ہوگا وہ کسی کو معلوم نہیں، تاہم   توحش پرستی کے نتیجے میں وحشی گری ،  چاروں طرف   مجرموں  اور جرائم پیشہ عناصرکی راج دہانی ، یورپ کی طرح  عائلی نظام  کی بربادی  ، مہر و محبت کا فقدان یہ وہ نتائج    ہیں  جو  بے عطوفت ماؤں کی آغوش میں پروان چڑھنے والی نسلوں پر مشتمل معاشرے کے حوالےسے  ہم  پیش بینی کرسکتے ہیں ۔ لہذا      ہماری ماؤں کو     خود غرضی سے پرہیز کرتے ہوئے کبھی ختم  نہ ہونے والی  محبت کے  مقدس چشمے سے  اپنے  بچوں کو سیراب کرنے میں کوتاہی سے گریز کرتے ہوئے اپنے  پیارے بچوں کو محبت اور عطوفت کے ساتھ گود میں لیکر   ترانہ محبت  کی لوریوں سے انہیں مامتا کے معنی سمجھا دینے کی ضرورت ہے  تاکہ اسلامی دستور  حیات کے مطابق ہمارے بچوں کی تربیت ممکن  ہوسکے۔