■ اداریہ
■ فلسفہ توحید 2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدعادل علوی
■ انوار قدسیہ 2
■ شمع خاموش کی تابندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید حسن عباس فطرت
■ مواعظ ونصائح 2
■ مفید معلومات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید شہوار نقوی
■ سلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میر انیس
■ امام حسینؑ کاشیدائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید عادل علوی
■ علماء کی یاد 2 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید سجاد عبقاتی
- حج کے اسرار اور معارف
- مجلہ عشاق اہل بیت 18و19۔ربیع الثانی1439ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 16و17۔ربیع الثانی1438ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 14و 15 ۔ ربیع الثانی 1437 ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 12و 13۔ربیع الثانی 1436ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 11-ربیع الثاني1435ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 10-شوال 1434ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت9۔ربیع الثانی 1434ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 8- شوال۔ 1433ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 7۔ محرم ،صفر، ربیع الاول ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 6۔شوال ،ذیقعدہ ، ذی الحجہ ۔1420ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 5۔ رجب ،شعبان، رمضان ۔1420ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 4۔ رجب ،شعبان، رمضان ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 3۔ ربیع الثانی،جمادی الاول، جمادی الثانی ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 2۔ محرم،صفر ، ربیع الاول ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 1۔ شوال ،ذی الحجہ 1414 ھ
- خورشیدفقاہت
فلسفہ توحید
دوسری قسط
آقای سیدعادل علوی مدظلہ
ترجمہ: مرغوب عالم عسکری ہند
پہلے شمارہ میں فلسفہ توحیدکے سلسلے میں ایک دلیل کو بیان کیا تھا
اب اس شمارہ میں ہم بقیہ دوسری دلیلوں کوپیش کررہے ہیں۔
2۔ دلیل حدوث :مسلک متکلمین: یہ ہے کہ موجود کوحادث ہونے کے اعتبار سے لحاظ کیاجائے اوراس طرح دلیل قائم کی جائےکہ" العالم متغیرباالبداھۃ"عالم بدیہی طورپر تغیرپذیرہے۔"کل متغیرحادث"ہرمتغیرحادث ہے اس لئے ہرحادث یامسبوق بہ غیرہے یامسبوق بہ عدم پس نتیجہ یہ ظاہر ہواکہ عالم حادث ہے۔
اوریہ بات بھی مسلم اورناقابل انکار ہے کہ ہرحادث کے لئے ایک محدث کاہوناضروری ہے۔لہذاعالم کیلئےحادث ہونے کے ناطے ایک ایسے محدث کاہونالازم ہے کہ جوخود حادث نہ ہواسلئے کہ اگر وہ خود حادث ہوگاتواسکے لئے ایک دوسرےمحدث کی ضرورت ہوگی اوراگردوسرامحدث بھی حادث ہوگاتو اسکے لئے تیسرامحدث کاہوناکاہونالازم آئے گا۔ یہاں تک کہ یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہوگاجس کا لازمہ دوروتسلسل ہے اوریہ دونوں باطل ہیں۔
لہذاضروری ہے حادث کا سلسلہ ایک ایسے محدث تک منتہی ہوجوخودحادث نہ ہو بلکہ محدث ازلی قدیم ہو ۔
3۔ دلیل حرکت :روش طبیعین۔وہ یہ ہے کہ موجود کوجسم اورمتحرک ہونے کے اعتبارسے دیکھاجائے۔
1۔ موجودمن حیث ھو :جسم ہے اوربدیہی طورپرمتحرک ہے اورہر متحرک کیلئے ایک محرک غیرمتحرک کاہوناضروری ہے اوروہی محرک فاعل وموجداول ہے۔
2۔ موجودمن حیث ھو :جسم مرکب ہے اورہرجسم مرکب کیلئے ایک ترکیب دہندہ بسیط کاہونالازم ہے اوروہ ترکیب دہندہ بسیط غیرمرکب اورفاعل اول ہے۔
3۔ تمام اجسام جسمیت میں مشترک ہیں اورہر جسم دوسرے جسم سے حقیقت غیرجسمیہ میں امتیاز رکھتاہے، لہذا اس امتیاز کیلئے ایک علت درکارہے،اس لئے کہ ترجیح بلامرجح ممتنع ہے۔
اب وہ علت امتیاز جسمیت مشترکہ نہیں ہوسکتی ہے ،اورنہ ہی وہ حقیقت غیرجسمیہ علت امتیاز بن سکتی ہے جوتمام اجسام میں وجہ امتیاز ہے کہ جسے صورت نوعیہ بھی کہتے ہیں۔
لہذا مانناپڑے گاکہ علت امتیازکوئی ایسی شئی ہے جوان اجسام سے خارج ہے اوروہی صانع اول ہے کہ جسے بسیط مطلق کہتے ہیں۔
4۔ دلیل نظم:۔یہ بات واضح ہے کہ ہروہ شئی جس میں نظم وضبط پایاجائے اسکے لئے ایک ناظم اورتنظیم دینے والے کاہوناضروری ہے کہ جوخودعالم وقادروحکیم ہو۔اوریہ عالم کون وفساد ذرہ سے لیکرآفتاب اورآفتاب سے لیکرکہکشان وفلک الافلاک تک ایک خاص نظم ونسق کے تحت واقع ہے کہ اگرسرموبھی اختلاف ہوجائے توسارا عالم تباہ وبربادہوجائے۔پس اسکے لئے ایک ایسے صانع ،حکیم اورمدبرکاہوناضروری ہےکہ جو " لاتاخذہ سنۃ ولانوم " کامصداق ہو۔
ورنہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مادہ جس میں حیات واحساس ،فکرایجاد وتخلیق کاتصور نہیں اس عظیم جہان کیلئے مؤثر بن سکے ۔اورکیسے ہوسکتاہے کہ جس مادہ کی تاثیر ادنیٰ ہے وہ عظیم جہان میں جومادہ سے کہیں زیادہ بلندوعظیم ہےاثرپیداکرسکے۔
لہذا یہ تکامل ونظم ونسق باحکمت جواس وسیع وعریض عالم کے نظام کاحکم فرماہے۔ یہ برہان قاطع اوردلیل ساطع ہے صانع عالم کے وجودپر۔
اوراگراس کائنات کے بارے میں نہیں سوچ سکتے تواپنے جسم ہی بارے میں غور وفکرکروکہ جس میں اعضاء وجوارح ،اطراف وجوانب ،نشیب فرازہیں توتمہیں یقین ہوجائے گاکہ کوئی خالق ومصورہے کہ جس نے تم کوپیداکیا اورتمہاری تصویرکشی کی۔ اوراسی سے حدیث میں بھی آیاہے۔"من عرف نفسہ فقدعرف ربہ" جس نے خود کوپہچان لیااس نے خداکی معرفت حاصل کرلی،یعنی خودشناسی خداشناسی کاذریعہ ہے۔
تونتیجہ یہ نکلاکہ اس عالم کاایک صانع اورخالق ہے جو صانع ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم بھی ہے ۔اوراس بات پرخود اس کائنات کی نشانیاں نظم ونسق ،ترتیب وتدبیر پردلالت کرتی ہے۔
5۔دلیل علت ومعلول:۔یہ بات بھی روشن وبدیہی ہے کہ ہرمعلول کیلئے ایک علت کاہوناضروری ہے۔ چنانچہ ہم اس کائنات میں علت ومعلول کے قوانین ونظام کو دیکھتے ہیں اورواضح طورپرمحسوس کرتے ہیں جسکی وجہ سے ہم پر یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ تمام معلولات ایک علت اولی کاوجود لازم ہے کہ جس نے تمام اپنے وجود مطلق ،اورمطلق وجود سے فیض وجود بخشاہے، اسی کانام خداہے۔
۔:نقلی دلیل:۔
"سُئل إعرابي عن الدّليل على وجود الله تعالى فقال: البعرة تدل على البعير، والرّوثة تدل على الحمير، وأثار القَدم تدلّ على المسير،فھیکل علوی بھذہ اللطافۃ ومرکز سفلیٰ بھذہ الکثافۃ کیف لایدلان علیٰ اللطیف الخبیر"۔
ایک اعرابی نے معصوم سے سوال کیا کہ وجود خداپرکیادلیل ؟ تومعصومؑ نےارشاد فرمایاکہ اونٹ کی مینگنی دلالت کرتی ہے اونٹ پر،گدھے کی لیددلالت کرتی ہے گدھے کے وجودپر،پیرکے نشانات نشاندہی کرتے ہیں کہ ادھرسے کوئی گزراہے پس یہ عریص کرہ سماوی اپنی لطافت کے ساتھ اوریہ بسیط کرہ ارضی اپنی کثافت کے ساتھ کیسے صانع عالم کے وجودپر دلالت نہیں کرتے کہ جولطیف وخبیرہے۔اس کے علاوہ سینکڑوں قطعی دلائل وعقلی براہین صانع عالم کے وجودپرموجودہیں مثلاً دلیل حسابات(ریاضیات)اوراحتمالات قطعیہ وغیرہ۔
لیکن بحث توحیدمیں جملہ دلائل نقلی ودلائل عقلی آیات وروایات کے حریم سے خارج نہیں ہیں۔ اس لئے کہ جملہ انبیاء واوصیاء خدا نے تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں سب سے پہلی جوصدابلندکی ہے وہ توحیدوایمان باللہ کی دعوت ہے اوروحدہ لاشریک کے علاوہ تمام خداؤں کی نفی کی۔
اوریہ بھی ایمان ہے باللہ اوراس سے جو حیات جلوہ گر ہوتی ہے یہ فقط ایک مسئلہ فکری نہیں ہے کہ جس کاحیات سے کوئی رابطہ نہ ہو بلکہ ایک ایسامسئلہ ہے کہ جس کا عقل وقلب اورحیات سبھی سے برابرکاتعلق ہے۔
اوریہ ایمان باللہ طبقاتی اختلافات یاجابر وظالم حکام وطاغوت کے ظلم وجورکے نتیجہ میں بھی وجودنہیں آیااسلئے کہ یہ ایمان بااللہ اس طرح کے تمام اختلافات وتناقضات سے پہلے تاریخ بشریت میں موجودتھا۔اسی طرح یہ ایمان بااللہ حوادث روزگار کے مقابلے میں خوف وہراس کے باعث وجود میں نہیں آیااسلئے کہ اگریہ ایمان باللہ خوف ورعب کانتیجہ ہوتاتوطول تاریخ میں بزدل وخوفزدہ افراد کی دینداری اورتدین میں اکثریت ہوتی جبکہ طول تاریخ میں جوافراد مشعل راہ کے حامل تھے وہ لوگوں میں سب سے زیادہ توانااورثابت قدم تھے، اللہ کی راہ میں انھیں کسی ملامت کرنے والے کی کوئی پرواہ نہ تھی ۔
توایمان باللہ ان تمام مذکورہ امورنتیجہ میں وجود نہیں آیابلکہ ایمان باللہ انسان کی سلیم فطرت اورضمیر باطنی کی آواز پہ لبیک کہنے کانتیجہ ہے جس سے خالق کے ساتھ انسان کے جبلی وفطری تعلق کاپتہ چلتاہے۔
"بسم اللہ الرحمن الرحیم. قل ھواللہ احد.اللہ صمد. لم یلد. ولم یولد. ولم یکن لہ کفوا احد " |