■ اداریہ
■ فلسفہ توحید 2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدعادل علوی
■ انوار قدسیہ 2
■ شمع خاموش کی تابندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید حسن عباس فطرت
■ مواعظ ونصائح 2
■ مفید معلومات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید شہوار نقوی
■ سلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میر انیس
■ امام حسینؑ کاشیدائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید عادل علوی
■ علماء کی یاد 2 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید سجاد عبقاتی
- حج کے اسرار اور معارف
- مجلہ عشاق اہل بیت 18و19۔ربیع الثانی1439ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 16و17۔ربیع الثانی1438ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 14و 15 ۔ ربیع الثانی 1437 ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 12و 13۔ربیع الثانی 1436ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 11-ربیع الثاني1435ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 10-شوال 1434ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت9۔ربیع الثانی 1434ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 8- شوال۔ 1433ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 7۔ محرم ،صفر، ربیع الاول ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 6۔شوال ،ذیقعدہ ، ذی الحجہ ۔1420ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 5۔ رجب ،شعبان، رمضان ۔1420ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 4۔ رجب ،شعبان، رمضان ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 3۔ ربیع الثانی،جمادی الاول، جمادی الثانی ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 2۔ محرم،صفر ، ربیع الاول ۔1415ھ
- مجلہ عشاق اہل بیت 1۔ شوال ،ذی الحجہ 1414 ھ
- خورشیدفقاہت
سلسلہ نمبر2
علماء کی یاد
سیدسجاد ناصر سعید عبقاتی ہندوستانی
آیۃا ۔۔۔ میر حامد حسین ہندی (صاحب عبقات الانوار)
آپ کانام نامی سید مہدی اورکنیت ابوظفر تھی لیکن آپ سید میرحسین کے نام سے مشہور ہوئے۔شہرت کی وجہ یہ تھی کہ ایک شب آپ کے والد ماجد مفتی قلی علیہ الرحمہ خواب میں اپنے جد امجد سیدحامد حسین ؒ کی زیارت سے مشرف ہوئے جب آپ خواب سے بیدار ہوئے تواپنے نورنظر کی ولادت کی خبر سنی بنابرایں اپنے بیٹے کواپنے جد کے نام سے شہرت بخشی۔
آپ کے والد ماجدعلامہ سید محمدقلی اپنے وقت کے مشہور علماء میں تھے صاحب عبقات کاشجرہ نسب 26،واسطوں سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے ملتاہے۔
آپکی ولادت اورتعلیم:میرحامد حسین ہندی شہرمیرٹھ میں بتاریخ 5/محرم 1246ہجری قمری کومتولد ہوئے ۔میرحامد حسین ہندی کے بچپن ہی سے پیشانی مبارک سے آثار ذہانت وبزرگی نمودار تھے ۔اورمومنین آپکی اس علامت سے یہ محسوس کرتے تھے کہ آج کایہ بچہ آگے جاکر مادرگیتی کی آغوش میں بسنے والوں میں فرد فرید ہوگا۔
آپ نے سات سال کی عمر مبارک سے اپنے والد ماجد سے تعلیم کاآغاز کیااور14 سال عمر تک پہنچتے پہنچتے تمام ابتدائی دینی کتابیں ختم کرڈالیں ،آپ ابھی 15سال کے تھے کہ مفتی محمدقلی علیہ الرحمہ میرٹھ سے لکھنؤ تشریف لائے اوریہیں انتقال فرماگئے ،والد ماجد کے انتقال کے بعد آپ کو اپنی تعلیم کی تکمیل کیلئے دوسرے اساتذہ کی طرف رجوع کرناپڑا۔
آپ نے ادبیات کی تعلیم مفتی محمد عباس صاحب قبلہ سے حاصل کیاعلوم عقیلہ کادرس علامہ سیدمرتضیٰ بن سلطان العلماء علیہ الرحمہ سے حاصل کیا اورتعلیم شرعیہ کی کتابیں جناب سید العلماء سید حسین صاحب قبلہ سے پڑھیں۔
میر حامد حسین ہندی علماء وافاضل کی نظر میں
علامہ الشیخ آقابزرگ تہرانی:(صاحب کتاب الذریعہ ) میر حامد حسین ہندی کے فضائل کے سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں۔
"آیۃ ا۔۔۔ العظمیٰ میر حامد حسین ہندی بزرگ ترین متکلم اورعظیم ترین عالم تھے آپ کے علم وفضل کی مثال گزشتہ علماء میں مفقود آپ نے اپنے قلم کے ذریعہ وہ خدمات انجام دی ہیں جوعالم اسلام بالخصوص علم تشیع کیلئے عظیم سرمایہ کی حیثیت رکھتی ہیں"
علامہ عبدالحسین الامینی (صاحب الغدیر)آپ کی جلالت قدر پریہ تبصرہ فرماتے ہیں :۔
"میر حامد حسین ہندی اپنے والد علامہ مفتی محمدقلی علیہ الرحمہ کی طرح علم میں بے مثال تھے آپ دشمنان دین وحق کیلئے مثل شمشیر براں تھے آپ نے اپنی مایہ ناز کتاب "عبقات الانوار"کے ذریعہ شیعیت کوجو عروج بخشا ہے اسے دنیائے تشیع کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی ۔میری کتاب الغدیر کی تدوین وتالیف عبقات الانوار کی رہین منت ہے۔
فاضل متحیر علامہ محمد علی مدرس تحریر فرماتے ہیں:۔
" میر حامد حسین ہندی آیات الٰہیہ کی ایک آیت اورفرقہ حقہ کے دلائل میں سے ایک دلیل تھے۔یوں تو آپ تمام علوم اسلامی پردسترس رکھتے تھے لیکن خصوصیت کے ساتھ"احادیث " ،"رجال"اور "کلام"میں آپ کی ذات بے نظیر تھے"
آیۃ ا۔۔۔ میر حامد حسین ہندی اورعزاداری سیدالشہداء
آپ مجالس سیدالشہداء میں کثرت سے شرکت فرماتے تھے اورمصائب آل محمدؐ زیادہ دیر تک نہیں سن سکتے تھے ۔ایک مرتبہ کاواقعہ ہے کہ ایک حسینیہ میں مجلس ہورہی تھی اس مجلس میں ظاہراً صاحب عبقات تشریف نہیں لائے تھے ۔خطیب جب مصائب پر آیاتودیکھاکہ دفعتاً مجمع منتشر ہونے لگااورکئی مومنین منبر کی طرف آئے اوربہ آواز بلند خطیب سے کہا کہ فوراً مجلس ختم کردیں کیونکہ میرحامد حسین مصائب سید الشہداء سنتے سنتے بے ہوش ہوگئے ہیں اگر مجلس جاری رہی تو ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرسکتی ہے۔ لہذا مجلس فوراً ختم کردی گئی اورکافی دیر کے بعد اس عاشق اہل بیتؑ کو ہوش آیا۔
میر حامد حسین ہندی کاکتب دینی سے عشق
غالباً مصر سے بحری سفر سے واپس تشریف لارہے تھے۔ پانی کے جہاز میں ایک بہت ہی اہم خطی کتاب کامطالعہ فرمارہے تھے جس کا صرف ایک ہی نسخہ تھا۔
دفعتاً ہوا کا ایک نہایت شدید جھونکا آیا اوروہ کتاب ان کے دوست مبارک سے چھوٹ کرسمندر میں گرگئی کتاب کاسمندر میں گرناتھا کہ آپ نے بھی اپنے آپ کو سمندرکے حوالے کردیا۔یہ منظر دیکھناتھاکہ جو لوگ جہازمیں موجود تھے ان میں کہرام مچ گیا اورجہاز کے کپتان کو فوراً اس واقعہ سے مطلع کیاگیا تھوڑی دیر کے بعد لوگوں نے دیکھاکہ میر حامد حسین ہندی کے ایک ہاتھ میں وہ گراں بہا کتاب ہے اوردوسرے ہاتھ سے تیرتے ہوئے جہاز کی طرف آنے کی کوشش کررہے ہیں الغرض جہاز کو واپس ان کی طرف لے جایا گیا اوربڑی مشکل سے انہیں سمندروں کی تیز موجوں سے نکالااورجہازپرلایاگیا۔
یہ کتاب آج بھی کتاب خانہ ناصر یہ میں موجود ہے اورترہوجانے کی وجہ سے جا پانی کےنشانات اس پرپڑھ گئے تھے وہ آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔
آپ کے آثار علمیہ: آپ کی تصانیف میں گرانقدر،بے بہا اورعظیم الشان کتب ہیں۔
1۔ استقصاء الافحام (10 جلدوں میں) 2۔ شوار ق النصوص (5جلدیں) 3۔ کشف المعضلات (چند جلدیں) 4۔ نجم الثاقب
5۔ زین الوسائل 6۔ الزرائع درشرح الشرائع (ناقص) 7۔اسفار الانوار 8۔ آپ کی سب سے عظیم تصنیف "عبقات الانوار فی امامۃ الائمۃ الاطہار " ہے جو 30 جلدوں پر مشتمل ہے۔(تکملہ نجوم السماء ص 31 جلد2)
عبقات الانوار:کتاب ہذا دراصل کتاب تحفہ اثناء عشریہ مصنفہ مولوی شاہ عبدالعزیز بن ولی ا۔۔۔ دہلوی (لعہ)(جوعقائد شیعہ کے رد میں لکھی گئی تھی)کے باب امامت کاجواب ہے۔
کتاب تحفہ اثناء عشریہ میں امیرالمومنینؑ کی شان میں منقول تمام متواتر احادیث کو جعلی اوربےبنیاد بتایاگیاہے۔ چنانچہ صاحب عبقات نے ان تمام احادیث کو اہل سنت والجماعت کی کتابوں سے متواتر ثابت کرنے میں انتہک کوشش کی ہے۔
اس سلسلے میں پہلے اس حدیث کو نقل کیاگیاہے جس کا مصنف تحفہ نے انکار کیاہے ۔پھراصحاب تابعین اورتبع تابعین کے طبقات سے ان اشخاص کے نام درج کئے گئے ہیں جنہوں نے اس حدیث کی روایت کی ہے بعد میں ان اصحاب وغیرہ کی توثیق کے سلسلے میں اہل سنت کی کتب رجال میں جو کچھ بھی وارد ہوا ہے اس کوذکر کیاگیاہے۔
اس کے بعد ہرصدی اورہرطبقے کے ان محدثین کے اسماء نقل کئے گئے ہیں جنہوں نےاپنی اپنی معتبرکتابوں میں اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔
کتب خانہ ناصریہ:
صاحب عبقات علیہ الرحمہ نے اپنی اس پر برکت زندگی میں استفادہ کی خاطرایک عظیم کتب خانہ بھی مرتب کیاتھا جس میں اس وقت تقریباً20000/مختلف الموضوع کتابیں موجودتھیں جس میں خطی کتابوں کی تعداد طبع شدہ کتابوں سے زیادہ تھی۔ جب تک صاحب عبقات حیات رہےاس کی دیکھ ریکھ میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیاآپ کے انتقال پر ملال کے بعد یہ عظیم کتب خانہ آپ کے نامور فرزند کی زیرنگرانی آیا جو علم وفضل اورزہد وتقویٰ وغیرہ میں ہر جہت سے آپکی نظیر تھے ۔ان کی اولاد میں سرکار شمس العلماء زعیم شیعہ مفتی شریعت سیدناصر حسین معروف بہ سرکار ناصرالملت کامرتبہ انتہائی عظیم اوربہت بلندہے۔آپ اپنے والد ماجد کے کتب خانہ کووسیع وتعمیر میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیاآپ کے زمانہ میں کتابوں کی تعداد بیس سے چالیس ہزارجلدوں تک پہنچ گئی۔
چونکہ اس عظیم ذخیرہ کی وسعت ایک چھوٹے اورمعمولی سے مقام کیلئے متحمل نہیں ہو سکتی تھی اس لئے آپ نے کتابخانہ کی خاطر ایک عظیم الشان عمارت تعمیرکروائی ۔انہیں تمام وجوہات کی بناپر کتابخانہ عبقات کتابخانہ ناصریہ کے نام سے مشہورہوگیا۔
سرکار ناصرالملت کی جانکاہ رحلت کے بعد ان کے دونوں صاحب زادوں سرکار نصیرالملت اورسرکار سعیدالملت نے اس کتاب خانہ کواپنی توجھات کامرکز بنایااوراب ان دونوں حضرات کی رحلت کے بعد سے سرکار سعید الملت کی تینوں اولاد کے زیر اہتمام ہے اورتشنگان علوم آل محمدؐ اورصاحبان ذوق کی تسکین کیلئے موجود ہے۔
آپ کی وفات حسرت آیات اورمدفن:
آپ نے مختصر علالت کے بعد18/ صفر1306 ہجری قمری کودارالعلوم لکھنؤ میں داعی اجل کولبیک کہا اورحسینیہ غفر انمآب لکھنؤ میں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے آسودہ لحد ہوگئے آپکا مزار اقدس اورمرقد منور زیارت گاہ خاص وعام ہے۔ "زمین کھاگئی آسمان کیسے کیسے"