زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

آئینہ انتظار سید نجیب الحسن

آئینہ انتطار

از: سید نجیب الحسن زیدی

ہر جمعہ کے دن میری مشعل چشم آنسوؤں کے زلال سے جل اٹھتی ہے،اور میں کوچوں اورگلیوں سرگرداں اورحیران۔۔۔۔ تجھے ڈھونڈھتاہوں کہ شائد تومجھے اپنامہمان بنالے میری طرف ایک نظر دیکھ لے۔

اے سعادت وخوشبختی کی نسیم سبز میرا پورا وجود تیرے ظہور کامنتظر ہے میرا یہ ناچیز وجود تیرے حضور کانظارہ گرہے اس خستہ حال اورناتواں کو صرف تیری یادیں سکون پہنچاتی ہیں۔

اے میرے آقا!اے بحر نور! میں گلیوں گلیوں اورکوچوں میں صرف تیری خاطر بھٹک رہاہوں اس امید پر کہ شاید تیرے وجود کی نسیم  مجھ تک پہنچ جائے اوراس دل بے قرار کو قرار آجائے ۔

میں نے تجھے اپنی امید کے سرسبز باغوں میں دیکھا۔۔۔۔ اپنے مصلے پر تلاش کیا ،تجھے آسمانوں میں ڈھونڈھا،پہاڑوں کی سنسان وادیوں میں تلاش کیا،میں نے تجھے ستاروں کے درمیان دیکھا،آفتاب ومہتاب میں بھی تیری ہی جستجو کرتارہا لیکن تو مجھے نہ مل سکا۔کہاں ہے تو اے پنہاں آفتاب؟

آدمؑ اس لئے اس ارض خاکی پر آئے کہ اس کائنات  کی بنجر زمین تیرے وجود سے سرسبز وشاداب ہوسکے ،یعقوب ؑ کاگریہ تیرے ہی جمال کی پرتوکی فرقت میں تھا،نوح ؑ کی کشتی بھی تیرے ہی توسل سے ساحل نجات پر لگی ،تیرا ہی نام تھا جو تاریکی شب میں یونسؑ کاغمخوار بناتوہی یوسف ؑ کے عارفانہ نجویٰ کی جان ہے۔

اگرموسیٰ نے تیرے جمال کو دیکھا ہوتاتو کبھی بھی "ارنی" کی صدا بلند نہ کرتے توہی توعیسیٰ ؑ کی مسیحائی کی پہچان ہے، کعبہ کادر علیؑ کے واسطے اسی لئے شگافتہ ہواتاکہ تواس دنیا میں قدم رکھے اورظلم وجور سے پر دنیا کو عدل وانصاف سے بھردے۔

آج جبکہ تیری ولادت کادن ہے میں تیرا انتظار کررہاہوں کہ شاید تو آئے اوراس تنہائی میں میرے غم کامدا وا کرے۔

انتظار میں یہ سب کیا دیکھ رہاہوں پروانہ رقص کررہے ہیں نسیم صبح کائنات کے ذرہ ذرہ کو اپنی لطافت سے مسحور کررہی ہے گلوں کی شاخیں تیرے احترام میں یوں جھکی ہوئی ہیں کہ جیسے تجھے جھک کر سلام کررہی ہوں بلبلیں تیری آمد کا قصیدہ پڑھ رہی ہیں آج ۔۔۔۔۔۔ آج واقعاً میں درختوں ،پہاڑوں ،پھولوں ،اور بلبلوں سب کی زبان سمجھ  رہاہوں سب یہی توکہہ رہے ہیں۔

" جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا"

عن الامام موسیٰ ابن جعفرعلیہ السلام:

"كَفّارَةُ عَمَلِ السُّلْطانِ أَلاِحْسانُ إِلَى الاِخْوانِ(منتہی الآمال: ج2،ص 308)