زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

◊ تحریف قران -محمد سجاد شاکری

تحریف ِ قرآن…؟

محمد سجاد شاکری  

پهلا قسط

مقدمہ :

خدا وند قدوس نے جہاں انسان کو تمام مخلوقات کا ہدف ِ خلقت قرار دیکر اشرف المخلوقات کے عنوان سے صفحہ ہستی پر بھیج دیا وہاں اس اشرف المخلوقات انسان کو بھی دیگر اپنی مخلوقات کی طرح عبث اور بے ہدف خلق نہیں فرمایا بلکہ جتنا اس مخلوق کو عظیم و برتر بنایا اس کا ہدف ِ خلقت بھی معرفت ِ الٰہی کے عرش پر قرار دیا ۔لیکن ’’مِن بَینِ الصُّلبِ وَ التَّرائِب ‘‘ (۱)سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والے انسان کے لئے معرفت الٰہی کے عرش پر قدم جمانا ایک ناممکن عمل تھا لہٰذا خداوند عالم نے احسان و امتنان کرتے ہوئے ہدایت و رہنمائی کا ایک نہ ختم ہونا والے سلسلے کا آغاز فرمایا ۔ اسی تسلسل میں امّت محمد ؐ کی ہدایت کے لئے اسے نسخ ناپذیر رسالت و نبوت ، قانون و شریعت اور کتاب و حکمت سے نوازا ، خدا وند قدوس نے ایسی کتاب اپنے آخری نبی کے ذریعے اس امّت کے حوالے کردیا ،جس کی مثال اولین و آخرین میں کوئی نہیں لا سکتا ۔

جب سے اس کتاب کا نزول اور اس کی تعلیمات نے اطراف عالم میں ضو فشانی کرنا شروع کیا ، اس وقت سے اس کتاب ِ مقدس نے جہاں بہت سارے دلوں کو اپنی شمع سے موم کی طرح پگلا دیا وہاں ’’ختم اللہ علیٰ قلوبہم ‘‘ (۲)اور ’’قلوبنا غلف‘‘(۳)کے مصداق بننے والے بہت سے افراد اس کتاب سے دشمنی پر اتر آئے اور پوری کوشش کی کہ یہ پیغام اور اس کتاب کی تعلیمات اپنی جگہ سے باہر نہ جا سکے ، لیکن جب انہوں نے خود کو  اپنی ان کوششوں میں ناکام ہو تے دیکھا تو انہوں نے مختلف حیلوں اور بہانوں سے اس کتاب کو مشکوک کرنے کی کوشش کی ۔

کبھی اس کتاب کے لانے والے پر سحر و کذب کا الزام لگاتے تھے(۴) تو کبھی شعر وخواب کی تہمت لگاتے تھے۔ (۵) جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا ان لوگوں نے دیکھا کہ ان کی دشمنیوں اور سازشوں کی دیواریں پھلانگ کر قرآن اپنا آفاقی پیغام لے کر دنیا کے گوشہ و کنار میں پہنچ گیا تو ان قسم خوردہ دشمنوں نے اس کتاب الٰہی کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا جو اس دفعہ خود اہلیان ِ قرآن کی صفوں میں ہی بنا یا گیا ، اب کا دشمن دوست کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا جو اپنے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت اس کتاب مقدس کی تضعیف اور پایہ اعتبار سے گرانے کی خاطر اس سے متعلق طرح طرح کے شکوک و شبہات کو ایجاد کرنے لگے ۔

لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آیا کہ کلام الٰہی کے قدیم اور حادث ہونے کے بحث کا آغاز ہوگیا جس میں مسلمانوں کو مختلف دھڑوں میں بانٹ کر ان کی اچھی خاصی توانائی جو اس آئین ِ الٰہی کے تفہیم و تعلیم میں صرف ہونی چاہیے تھی اس بے مقصد اور غافل کنندہ بحث میں صرف کردیں ، یہ بحث باعث بنی کہ مسلمان اس دوران قرآن مجید کی زندگی بخش تعلیمات اور دستور الٰہی کی ٓفاقی دفعات سے دور رہیں اور ایک دو سرے کو کلام الٰہی کے حادث اور قدیم ہونے کی دلیلین دیتے رہیں ، اس کے علاوہ ایک اور بحث جس نے مسلمانوں کو آپس میں مصروف رکھنے اور بے پناہ توانائی بے جا ضایع کرنے کا کام کیا وہ تحریف کا موضوع ہے ، اس دفعہ دشمن کے اس سازش نے ایک خطرناک ترین جگہ پر ہاتھ رکھ دی وہ اعتبار و سند ِقرآن کی جگہ تھی ۔ اس بحث کے نتیجے میں لوگوں کو دن کے رات ہونے کا شک ہونے لگا ، اور یہ بات کوئی ناممکن نہیں ہے کیونکہ جب ایک بڑی لابی اپنی پوری کوشش کے ساتھ کسی بدیہی اور روز روشن کی طرح کے یقینی بات کو شبہات اور اشکالات کی نذر کرتی ہے اور اس کے ساتھ مدافعین کو بھی مجبوراً ان اشکالات کے جواب دینے کی خاطر میدان میں اترنا پڑتا ہے تو خواہ نا خواہ لوگوں کے ذہن میں شک و تردید پیدا ہوتی ہے اور دن کے اجالے میں انہیں ستارے نظر آنے لگتے ہیں ۔ اور یہ وہ جگہ ہوتی ہے جہاں بدیہی اور یقینیات پر بھی دلیلیں قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، اور کتاب مجید کے ساتھ عین یہی مشکل پیش آئی ہے ۔لیکن زیرک دشمنوں کی سازشوں اور بے وقوف دوستوں کی کوتاہیوں کے حصار کو توڑ کر نور الٰہی نے اطراف و اکناف عالم کے کھنڈٖرات وادیوں میں ضلالت و گمراہی کے ظلمت کدوں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے انسانوں کے دلوں میں اپنی کرنوں سے شمع ہدایت جلادیا جسے کوئی نہیں بجھا سکتا :

یریدون ان یطفئوا نور اللہ بافواہہم ویأبی اللہ الا ان یتم نورہ ولو کرہ الکافرون ۔(۶)

نور حق شمع الٰہی کو بجھا سکتا ہے کون ؟

جس کا حامی ہو خد ااس کو مٹا سکتا ہے کون؟

اگرچہ یہ موضوع تفصیل طلب ہے لیکن اب تک اس پر بہت زیادہ کام ہوچکا ہے اور اس موضوع پر سیر حاصل بحث پرکی گئی ہے اور کئی جلدوں پر  مشتمل متعدد کتابیں لکھی جا چکی ہیںلہٰذااپنے مقالے کی محدودیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم ذیل میں موضوع سے مربوط کچھ شکوک و شبہات اور ان کے جوابات کے عنوان سے ایک مختصر جائزہ  لیں گے انشاء اللہ مورد قبولیت ِ حضرت ِ حق قرار پائے ۔

تحریف کے معنی :

تحریف کا اصلی مادہ (ح ر ف )ہے جس کا بنیادی معنی ’’طرف الشیء ‘‘ یعنی کسی بھی چیز کا کنارہ کے ہے ۔ جیسے کہ اسے تمام اہل لغت نے ذکر کیا ہے(۷)راغب اصفہانی بھی اس مادے کا بنیادی معنی ذکر کرنے کے بعد تحریف کے معنی میں لکھتا ہے :

’’تحریف الکلام : أن تجعلہ علی حرف من الاحتمال یمکن حملہ علی الوجہین ‘‘

’’کلام میں تحریف یہ ہے کہ کلام کو احتمال کے ایسے پیرایے میں ڈال دیا جائے کہ اسے دو معنوں پر حمل کرنا ممکن ہو ‘‘(۸) تقریباً تمام اہل لغت کی باتوں کا خلاصہ یوں بنتا ہے کہ تحریف کلام کسی لفظ کو اپنے اصلی معنی سے ہٹا کر کسی اور معنی میں استعمال کرنے کا نام ہے یعنی لفظ کا غلط معنی و تفسیر کرنا تحریف کلام کہلاتا ہے ۔علمائے لغت کے اس تعریف کو مد نظر رکھا جائے تو تحریف کا وہ معنی جو علمائے تفسیر اور علوم قرآن کے ماہرین نے تحریف لفظی کے لئے بیان کئے ہیں ، اس میں شامل نہیں ہوتا البتہ علماء نے جو تحریف معنوی کی تعریف کی ہے وہ علمائے لغت کے معنی کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے اور قرآن میں بھی جہاں کلامِ الٰہی میں تحریف کرنے کے حوالے سے بات کی ہے تو تحریف معنوی کو مورد بحث قرار دیا ہے ۔

اقسام تحریف :

علمائے تفسیر اور علمائے علوم قرآن نے تحریف کی بنیادی طور پر دو قسمیں بیان کئے ہیں ۔ ا۔ تحریف لفظی ۔ ۲۔ تحریف معنوی۔ لغوی حضرات نے کسی کے کلا م میں تحریف ایجاد کرنے کے جو معنی بیان کیا ہے اس سے مراد یہی دوسری قسم ہے اور تحریف لفظی اہل لغت کی تعریف سے خارج ہے ۔

لیکن ہمارا بحث تحریف معنوی کے گرد نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی کلام چاہے وہ کلام خدا ہو یا کلام غیر خدا تحریف معنوی سے محفوظ نہیں ہے اور یہ ایک بدیہی امر ہے۔ اور قرآن میں تحریف معنوی ہونے کی واضح دلیل تفاسیر کلام مجید کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا اور ایک ہی آیت سے مختلف اسلامی مکاتب فکر کا اپنا مطلوب معنی اخذ کرنا ہے ۔ اس مختصر مقالے میں ہمارا مورد نظر مطلب تحریف کی دوسری قسم یعنی تحریف لفظی سے بحث کرنا ہے کہ آیا قرآن مجید میں تحریف لفظی واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟ اور اگر نہیں ہوئی ہے تو دلیل عدم تحریف قرآن کیا ہے؟

تحریف لفظی کے اقسام:

 تحریف لفظی کی کئی قسمیں متصور ہیں ان میں سے کون کونسی قسمیں ہمارا مورد بحث قرار پائے گا ؟ اس بارے میں ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں ۔ جب ہم تحریف لفظی کی حدود اربعہ کا ملاحظہ کرتے ہیں تواس کی کئی قسمیں نظر آتی ہیں جن کو ہم پانچ قسموں میں خلاصہ کر سکتے ہیں ۔

۱۔ تحریف موضعی  ۲۔تحریف قرائت  ۳۔ تحریف کلمات  ۴۔ تحریف زیادہ  ۵۔ تحریف نقص۔(۹)

۱۔ تحریف موضعی:

بعض علماء جیسے آیت اللہ معرفت نے اس کے معنی یوں بیان فرمایا ہے :کہ قرآن کی آیات اور سوروں کی موجودہ ترتیب ، ترتیب نزولی کے خلاف ہے اور اس کو ترتیب نزولی سے تبدیل کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں آیات اور سوروں میں ترتیب اور جگہ کے اعتبار سے تحریف واقع ہوئی ہے لیکن یہ تحریف آیات میں بہت کم ہے یعنی آیات کو ترتیب نزولی سے تحریف بہت کم کیا گیا ہے بہ نسبت سوروں کے ، کہ سورے تقریباً سارے ہی نزول کی ترتیب پر نہیں ہیں۔ لیکن اس کو ترتیب نزول سے موجودہ ترتیب جو تبدیل کیا گیا ہے وہ  نزول کے دوران ہی حکم الٰہی سے نبی اکرم ؐ نے انجام دیا ہے اس میں بھی خدا کی ایک خاص حکمت پائی جاتی ہے ۔

پس جب خود خدا وند عالم کے اپنے حکم سے اس کے رسول نے اس کلام میں کو تدوین کیا ہے تو اس کو تحریف کہنا مناسب نہیں ہے ۔ کیونکہ ہمارا مورد بحث گفتگو اس بارے میں ہے کہ خداوند عالم نے اس کتاب کو نازل کرنے کے بعد اس میں کسی بشر نے تبدیلی کی ہے یا نہیں ؟ لہٰذا یہ قسم ہماری گفتگو سے ہی خارج ہے۔

۲۔تحریف قرائت :

اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کی وہ قرائت اور لہجہ جوعصر رسول اکرم ؐ میں رائج تھا اس میں تبدیلی واقع ہوئی ہے لیکن علماء شیعہ اس بات کے قائل ہیں کہ قرآن کریم کی اصل قرائت اور لہجہ جو عہد پیغمبر ؐ سے اب تک رائج ہے وہ عاصم نے حفص سے روایت کی ہوئی قرائت ہے اور یہی قرائت مسلمانوں میں آج تک معمول ہے اس کے علاوہ جتنے بھی قیل و قال ہیں چاہے جن سے قرآن کے معنی میں تبدیلی ہوتی ہو یا نہ ہوتی ہو محکوم اور مردود ہیں اور جمہور مسلمین میں رائج قرائت کے مقابلے میں ان اقوال و روایات کی کوئی حیشیت نہیں ہے ۔ اس موضوع پر سیر حاصل مطالعے کے خواہشمند حضرات کے لئے  آیت ا۔۔۔ خوئی ؒ کی معروف کتاب ’’البیان فی تفسیر القرآن ‘‘کا مطالعہ مفید رہے گا۔

اور لہجہ کے حوالے سے قرآن کو اسی متداول لہجے میں پڑھنا چاہئے جس لہجے میں عام عرب پڑھتے ہیں اگر اس کے علاوہ کسی اور لہجے میں پڑھنا معنی میں خرابی اور تبدیلی کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے ۔(۱۰)

۳۔ تحریف کلمات :

یعنی قرآن سے ایک کلمہ نکال دیا جائے اس کی جگہ کوئی اور کلمہ رکھ دیا جائے چاہے کلمہ دوم کلمہ اول کا ہم معنی ہو یا نہ ہو ، اس طرح کی تحریف بھی جائز نہیں ہے اور نہ ہی قرآن میں اس طرح کی تحریف واقع ہوئی ہے کیونکہ جیسا قرآن کا معنی و مفہوم اعجاز ہے قرآن کے الفاظ و کلمات بھی معجزہ ہے اور اعجاز قرآن کس طرح عدم تحریف قرآن پر دلالت کرتا ہے اس کو ہم دلائل عدم تحریف میں بیان کریں گے ۔

۴۔ تحریف زیادہ :

یعنی قرآن میں کسی چیز کا اضافہ کیا گیا ہو ، اس طرح کی تحریف کی بھی قرآن کی طرف نسبت دینا غلط ہے ، جو لوگ کسی آیت کے ابہام کو دور کرنے کے لئے کچھ کلمات آیت کے ساتھ بعنوان تفسیر و توضیح اضافہ کرے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن اگر اس اضافہ کو پیغمر اسلام ؐ پر نازل شدہ آیات کا حصہ قرار دیا جائے تو یہ جائز نہیں ہے اور قرآن میں تحریف زیادی تصور کیا جائے گا ، مسلمانوں میں سوائے گنے چنے چند افراد کے کوئی قرآن میں وحی الٰہی کے علاوہ کسی اور چیز کے اضافے کا قائل نہیں ہے ۔ خوارج(اگر ان کی ظاہری اسلام کا قائل ہو ) کے رہنماوں میں سے ایک ’’عجاردہ ‘‘اس بات کا قائل تھا کہ سورہ یوسف قرآن کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ قرآن میں اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ اس کے نزدیک اس سورے میں عشق و عاشقی کی کہانی ہے جو تعلیمات قرآن کے منافی ہے !(واعجباہ)

اور ابن مسعود بھی ایک بہت بڑے اشتباہ کا شکار ہوتے ہوئے ’’معوذتین ‘‘کو تعویز اور دعا سمجھتے ہوئے قرآن سے خارج اور اضافی تصور کرتا ہے(۱۱) لیکن ہمارا یعنی ’’شیعہ امامیہ اثنا عشریہ ‘‘کا عقیدہ یہ ہے کہ موجودہ قرآن جو دو جلدوں کے درمیان ہے عین وہی قرآن ہے جو حضرت محمد ؐ پر نازل ہوا ہے اس میں کسی قسم کا اضافہ واقع نہیں ہوا ہے ۔

۵۔ تحریف نقص:

یعنی موجودہ قرآن کامل نہیں ہے اور اس سے کوئی لفظ ، کلمہ ، جملہ ، آیت اور سورہ حذف ہوا ہے جیسے کہ اس بارے میں بھی ابن مسعود اور بعض دیگران نے واضح اشتباہات کئے ہیں ۔ لیکن ہم اس قسم کی تحریف کو بھی بڑی وضاحت اور شدت کے ساتھ رد کرتے ہیں ۔ ان اشتباہات کے ہی نتیجے میں شیعہ امامیہ پر تحریف قرآن کے قائل ہونے کی تہمت لگی ہے ، کیونکہ اسی نظرئیے کو دیکھ کر یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ شیعوں کے قرآن چالیس پاروں کے ہے اور وہ مسلمانوں میں رائج قرآن کو نہیں مانتے ہیں۔

دلائل عدم تحریف :

ہم اپنی دلائل کو تین بنیادی منابع عقل،قرآن اور سنت میں تقسیم کریں گے اور ان میں سے ہر ایک سے تین تین دلیلیں پیش کریں گے تاکہ شبہہ کو بھی زائل کر سکے اور مقالہ بھی اپنی گنجائش سے باہر نہ نکلے۔

دلائل عقلی :

اس عنوان کے تحت تین دلائل پیش کریں گے

(الف) دلیل روشن :

ہماری یہ دلیل متعدد مقدمات پر مشتمل ہیں جن کو ملاحظہ کرنے کے بعد کوئی بھی عاقل انسان مدعیٰ کے ثبوت کا انکار نہیں کر سکتا۔

۱۔علم و حکمت الٰہی :

اس کتاب کا نازل کرنے والا وہ ذات ہے جس کی طرف غلطی اور اشتباہ کی نسبت دینا صریح کفر اور انکار ذات باری کا سبب ہے ، اور اس ذات میں کسی قسم کا اشتباہ کا نہ ہونا ایک ثابت شدہ اور مسلم امر ہے ۔ جس سے یہاں بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

۲۔  پیغمبر اکرم ؐ کی عصمت و امانت :

اس کتاب کا اخذ کرنے والا سید الانبیاء حضرت محمد ؐ کی ذات ہے جو اس کتاب کی حفاظت اور پاسداری کیلئے کس قدر اہتمام کرتے تھے ؟ اس کا اندازہ ہم آیہء جمع کے لہجے سے لگا سکتے ہیں (۱۲)جس پر ہم بعد میں بحث کریں گے ۔

۳۔ واسطہ کی امانت داری:

درمیان میں واسطہ اور پیغام رساں جبرئیل کی ذات گرامی ہے جس کی امانت داری کو خود خداوند عالم نے ’’روح الامین ‘‘ کا لقب دے کر سراہا ہے۔ (۱۳)

۴۔ قوم کا مزاج وثقافت:

یہ کتاب ایک ایسی قوم پر نازل ہو گئی ہے ۔ جس کی ثقافت ہی فصاحت و بلاغت کے شاہکاروں کو اپنے سینوں میں محفوظ کرنا تھی ۔

۵۔ حفط و یاد گیری کا انتظام :

اس کے باوجود رسول گرامی اسلام ؐ اپنے اصحاب کو قرآن کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے اور اسے اپنے سینے میں محفوظ رکھنے کی تاکید فرماتے تھے، آپ نے حفظ کے اس قدر ثواب اور فوائد بیان فرمایا کہ اسے بیان کرنے کے لئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے ۔

۶۔ بروقت کتابت کا انتظام :

اس سے بھی بڑھ کر آپ ؐ اپنے اصحاب میں سے لکھنا جاننے والے کچھ خاص اصحاب کو کاتبان ِ وحی کے عنوان سے آیات الٰہی کی تحریر کے لئے مقرر فرماتے ہیں جو ہر نازل ہونے والی آیت اور سورہ کو پیغمبر اسلام ؐ کے حکم پر تحریر کرتے تھے۔

۷۔ اصحاب کی باز خوانی :

اصحاب اپنے پاس حفظ اور تحریر شدہ آیات اور حصوں کو بھول جانے اور اپنی دوسری یادداشتوں کے ساتھ مشتبہ ہونے کے خوف سے بار بار آپؐ کے پاس باز خوانی کرتے تھے تاکہ حضور ؐ اس کی تصدیق اور تصحیح کرے ۔

۸۔ تلاوت کا دائمی اہتمام:

اس کتاب کی تلاوت عبادت ہونے کی وجہ سیمسلمان ابتدائے نزول سے اب تک ہمیشہ پڑھتے ہیں، اس کو چھاپتے ہیں اور حفظ کرتے ہیں اور اسے اصول زندگی کے عنوان سے پہچانتے ہیں ۔ اور اس میں اپنی طرف سے کسی تبدیلی کو نہ بخشا جانے والا گناہ سمجھتے ہیں ۔

اہل خرد سے ہمارا سوال یہ ہے کہ آپ دنیا میں اس کتاب کے علاوہ کوئی دوسری کتاب پاتے ہیں جس کواس قدر اہمیت حاصل ہو ؟اور اس کی حفظ ، تحریر،اشاعت اور تدوین کے لئے اس قدر غیر معمولی اہتمام کیا گیا ہو ؟ آیا ان تمام امتیازی خصوصیات کے حامل ہونے کے باوجود اس کتاب میں تحریف کا قائل ہونا جہل و نادانی بلکہ مکر شیطانی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے ؟

(ب) دلیل تواتر:

دلیل تواتر سے مراد یہ ہے کہ کوئی بات اس قدر زیادہ افراد نقل کریں کہ جھوٹ ہونے کا احتمال نہ دے سکے ۔ اور یہ دلیل قرآن کی عدم تحریف پر محکم دلیلوں میں سے ہے ، کیونکہ ابتدائے نزول قرآن سے اب تک تمام مسلمانوں سے (سوائے چند افراد یا گروہ کے) موجودہ قرآن اپنے تمام اجزائ، کلمات، آیات، سورے، جملے، حروف اور حتی کہ اس کی قرائت تک تواتر کے ساتھ نقل ہو ا ہے ۔ کیونکہ قرائت میں عاصم کی قرائت مسلمانوں میں متداول او ر معروف ہے اب اس کے علاوہ جو چیز بھی دلیل تواتر کی مخالفت کرتے ہوئے قرآن میں شامل کیا جائے یا قرآن سے خارج کیا جائے وہ دلیل تواتر سے موافق نہ ہونے کی وجہ سے خود بہ خود پایہء اعتبارسے گر جائے گی ۔(۱۴)

(ج) دلیل اعجاز:

قرآن کا معجزہ ہونا عدم تحریف کی دلیلوں میں سے ایک مظبوط ترین دلیل ہے کیونکہ قرآن نے اپنے نزول کے وقت سے پوری انسانیت بلکہ تمام انس وجن کو اپنی پوری توانائی کے ساتھ قرآن کا نظیر پیش کرنے کا چیلنج کیا ہے :

’’قل لئن اجتمعت الانس و الجن علی ان یأتوا بمثل ہٰذا القرآن لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضہم لبعض ظہیراً‘‘

’’آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار پشت پناہ ہی کیوں نہ جائیں ۔‘‘(۱۵)

پھر تھوڑا ڈھیل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر یہ نہیں کر سکتے ہو تو دس سورے بنا لاؤ۔

’’ام یقولون افتریٰہ قل فأتوا بعشر سور مثلہ مفتریٰت ودعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقین۔ ‘‘

’’کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسے پیغمبر نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دو کہ اس کے جیسے دس سورہ گڑھ کر تم بھی لے کر آؤ اور اللہ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کے لئے بلا لو اگر تم اپنی بات میں سچے ہو ۔ ‘‘(۱۶)

اس سے بھی عاجز ہو تو اتنا تو کرو کہ ایک سورہ ہی بنا لاؤ۔

’’ام یقولون افتریٰہ قل فأتوا بسورۃ مثلہ وادعوا من استطعتم من دون اللہ ان کنتم صادقین۔ ‘‘

’’کیا یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسے پیغمبر نے گڑھ لیا ہے تو کہہ دو کہ اس کے جیساایک ہی سورہ لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جس کو چاہو اپنی مدد کے لئے بلا لو اگر تم اپنی بات میں سچے ہو ۔ ‘‘(۱۷)

جب اس کی بھی سکت نہیں رکھتے ہوں تواس کتاب کے مافوق طاقت بشری ہونے کا قائل کیوں نہیں ہوتے ہوں ؟ آج تک اس چیلنج کا جواب نہ دے پانا خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کتاب ہوبہو وہی کتاب ہے جو جبرئیل کے ذریعے خداوند عالم نے اپنے محبوب پر نازل کیا ہے اور اس میں کسی قسم کا بشری دخل و تصرف واقع نہیں ہوا ہے لہٰذا آج یہ بات ثابت ہو چکا ہے کہ قرآن نہ فقط معنی و مفہوم اور علوم و معارف کے اعتبار سے معجزہ ہے بلکہ قرآن کا ایک ایک لفظ معجزہ ہے جس کا دنیا جواب دینے سے قاصر ہے ۔

جاری ہے....

حوالہ جات

۱۔سورہ طارق آیت۷

۲۔سورہ بقرہ آیت ۷

۳۔سورہ بقرہ آیت۸۸

۴۔ سورہ ص آیت ۴

۵۔ سورہ انبیاء آیت ۵

۶۔ سورہ توبہ آیت ۳۲

۷۔التحقیق فی کلما ت القرآن الکریم ، علامہ حسن مصطفوی ؒ، ج۲؍ص۱۹۸، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی ایران ، طبع اول ۱۴۱۶ھ۔

 قاموس ِ قرآن ، علی اکبر قرشی ، ج۲؍ص۱۲۰، دار الکتب الاسلامیہ، طبع چہارم ۱۳۶۴ ھ ش

۸۔ مفردات الفاظ القرآن ، امام راغب اصفہانی ؒ،ص ۲۲۸، دار القلم دمشق و الدار الشامیہ بیروت ، طبع اول ۱۴۱۲ھ

۹۔مصونیت قرآن از تحریف ص۲۲،آیت اــــ۔۔۔ محمد ہادی معرفت ؒ، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی قم ، طبع اول ۱۳۷۶ھ ش

۱۰۔ مصونیت قرآن از تحریف ص۲۳

۱۱۔ مصونیت قرآن از تحریف ص۲۵

۱۲۔ سورہ قیامت آیت ۱۶

۱۳۔ سورہ شعراء آیت ۱۹۳

۱۴۔ مصونیت قرآن از تحریف ص۳۱

۱۵۔سورہ اسراء آیت ۸۸

۱۶۔سورہ ہود آیت ۱۳

۱۷  ۔ سورہ یونس آیت ۳۸