زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 5جمادی الاول(1446ھ)ولادت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 10ربیع الثانی(1446ھ)وفات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 8ربیع الثانی(1446ھ)ولادت امام عسکری علیہ السلام کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    8ربیع الثانی(1440ھ)امام حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت کےموقع پر

    امام حسن عسکری  علیہ السلام کی ولادت

     

    علماء فریقین کی اکثریت کااس بات پراتفاق ہےکہ   شمع ہدایت کے گیارہویں  چراغ ، حجت خدا حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام 8ربیع الثانی ۲۳۲ ہجری کو جمعہ  کے دن   جناب حدیثہ خاتون کے بطن سے   بمقام مدینہ منورہ متولدہوئے ہیں۔ [1]

     آپ کی ولادت کے بعد حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت محمدمصطفی ﷺ کے رکھے ہوئے ”نام حسن بن علی“ سے موسوم کیا۔

    آپؑ  کی کنیت اورآپ کے القاب

    آپ کی کنیت ”ابومحمد“ تھی اورآپ کے القاب بے شمارتھے جن میں عسکری، ہادی، زکی خالص، سراج اورابن الرضا زیادہ مشہورہیں ۔[2]      آپ کالقب عسکری اس لئے زیادہ مشہورہوا کہ آپ جس محلہ میں بمقام ”سرمن رائے“ رہتے تھے اسے عسکرکہاجاتاتھا اوربظاہراس کی وجہ یہ تھی کہ جب خلیفہ معتصم باللہ نے اس مقام پرلشکرجمع کیاتھا اورخو دبھی قیام پذیرتھاتواسے ”عسکر“ کہنے لگے تھے، اورخلیفہ متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کومدینہ سے بلواکریہیں مقیم رہنے پرمجبورکیاتھا۔ [3]

    چارماہ کی عمراورمنصب امامت

    حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی عمرجب چارماہ کے قریب ہوئی توآپ کے والدامام علی نقی علیہ السلام نے اپنے بعدکے لیے منصب امامت کی وصیت کی اورفرمایاکہ میرے بعدیہی میرے جانشین ہوں گے اوراس پربہت سے لوگوں کوگواہ کردیا۔[4]

    امام کی فعالیات 
    علمی حوزے کا قیام، شاگردوں کی بہترین تربیت کا اہتمام؛جن میں احمد بن اسحاق قمی،عثمان بن سعید عَمری،حسین بن روح(یہ دونوں بزرگوار صحابی و شاگرد بعد میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام کے چار نوّاب میں شمار ہوئے)عبداللہ بن جعفر حمیری۔
    امام نے عراق کے معروف فلاسفہ جیسے اسحاق کندی،اور مسیحی راہبوں،کے ساتھ مناظرات و علمی گفتگوکیے ۔اورمختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے شیعیان جیسے علی بن حسین بن بابویہ قمی،کی طرف خطوط و پیغامات بھیجنے کا انتظام،یہاں تک کہ زندان میں رہتے ہوئے بھی یہ امر انجام دیتے رہے۔
    صوفیوں،مشرکوں،واقفیہ اور مفوّضہ وغیرہ کے انحرافی نظریات و عقائد کے سامنے اپنے منطقی ،اسلامی اور حقیقی عقائد کا پرچارکرنے کے ساتھ ساتھ 
    اسلامی ملک کے مختلف نقاط میں اپنے نمائندے بھیج کر مؤمنین کی رہنمائی اور روابط کا بندوبست کیا۔

    اس کے  علاوہ  امام علیہ السلام نے محروموں اور مستضعفوں کی مالی ،اقتصادی حمایت و امداد،شیعوں سے حاصل ہونے والی وجوہات(خمس،وغیرہ سے قرضداروں کے قرض اتارنے کا اہتمام کیا۔

    امام ؑ بہ اذن خداوندبہت  سےمعجزات و کرامات اپنی حقانیت،شیعوں کی حفاظت و تقویت،بعض لوگوں کے دلوں سے شک و تردید کے خاتمے اور مخالفین پر خداوندمتعال کی حجت تمام کرنے کے لیے مناسب اور ضروری مواقع پر کا ظاہر کیا۔ اور اپنے شیعوں اور مؤمنوں کو اپنے فرزند مہدی موعود علیہ السلام کی غیبت کے زمانے کے لیے تیارکیا  اور اُس دوران ان کی ذمہ داریوں اور وظائف سے انہیں روشناس کرایا۔

    ہدایت کی شعاعیں
    یہاں پر  امام حسن عسکری علیہ السلام کے چند سبق آموز  فرامین پیش کرتےہیں  ۔
    قال امام العسکری علیہ السلام:

    1۔"مَن رضی بدون الشّرف من المجلس لم یزل اللہ وملائکتہ یصلّون علیہ حتٰی یقوم"[5]
    یعنی جو شخص اپنی شایان شان جگہ سے کمتر پر بیٹھنے پر راضی ہوجائے تو خُداوندمتعال اور اُس کے فرشتے اُس پر اُس وقت تک سلام بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ کھڑا نہ ہو جائے۔
    2۔"منِ التواضع السلام عليٰ کل من تمر بہ،والجلوس دون شرف المجلس"[6]
    یعنی تواضع یہ ہے کہ جس کے پاس سے گزرو اُسے سلام کرو اور محفل و مجلس کی مرکزی جگہ کی بجائے عام جگہ پر بینا ا پسند کرو۔

    3۔"من وعظ اخاہ سِرّاً فقد زانہ ومن وعظ علانیۃً فقد شانہ"[7]
    یعنی جو شخص اپنے دینی بھائی کو علیحدگی میں وعظ و نصیحت کرے (گویا اُس نے اپنے بھائی کی زینت و تزئین کی اور جو لوگوں کے سامنے نصیحت کرے اُس نے اپنے بھائی کو عیب دار کیا۔
    4۔"من مدح غیرالمستحق فقد قام مقام المتھم"
    یعنی جو شخص ایسے آدمی کی تعریف کرے جو تعریف کا حقدار نہ ہو یعنی جو بے جا تعریف کرے تو وہ اپنے آپ کو متہم کی جگہ پر لاکھڑُا کرتا ہے۔

    5۔"اتَّقُوا اللَّہ وَ كُونُوا زَيْناً وَ لَا تَكُونُوا شَيْناً جَرُّوا إِلَيْنَا كُلَّ مَوَدَّة وَ ادْفَعُوا عَنَّا كُلَّ قَبِيحٍ"[8]

    امام حسن عسکري (عليہ‏السلام) نے فرمایا:‏ تقوائے الہی اختیار کرو اورہمارے لئے زینت بنو اورہمارے لئے باعث ننگ وعار نہ بنو اورہر قسم کی مودت و محبت ہماری طرف کھینچ لاؤ اورہر قسم کی برائی اور قباحتیں ہم سے دور کرو۔

    امام علیہ السلام کے اس کلام کا مطلب یہ ہے کہ " ہمارے لئے زینت کا سبب بنو اور برائیوں سے دور رہو ۔ معاشرے میں ایسا رویہ اختیارکرو لوگ آپ کو دیکھ کرہماری محبت و مودت دل میں بسائیں۔ اور برے اعمال سے پرہیز کرو تا کہ ہم پر برائی کا الزام نہ لگایا جاسکےیعنی تمہاری برائیاں دیکھ کر لوگ ہم سے بدظن ہوجاتے ہیں۔

    ہمیں چاہیے جہاں تک ممکن ہو سکے بہترین راستہ کا انتخاب کریں ، خدا بھی ہماری مدد کرےگا ، معاشرتی اور مقبول ادب کا لحاظ رکھے اور مخالفین کیساتھ  دلیل اور برہان کے ذریعہ بات کرے ، لوگوں کو  برا بھلا کہنے سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں اسی طرح گالیاں دینے اور لعن طعن کرنے سے بھی کوئی مسئلہ نہیں حل ہوتا اگر گالی دیں گے تو گالی سننے کو ملے گی دوسروں کو کافر کہیں گے تو وہ بھی ہمیں کو کافر کہیں گے اور اس کا نتیجہ خوں ریزی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوگا،  لیکن جو ہماری ذمہ داری ہے کہ وہ تولی اور تبرّا اور مسلمانوں کی جان کی حفاظت کہ جو دونوں ہمارے دین کے بنیادی رکن اور جز ہیں ۔



    [1] ۔ جلاء العیون ص ۲۹۵ ،

    [2] ۔ مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۱۲۵

    [3] ۔ بحارالانوارجلد ۱۲ ص ۱۵۴ ۔

    [4] ۔ ارشادمفید ۵۰۲ ۔

    [5] ۔ بحارالانوار، ج 78، ص 466، ح 12۔

    [6] ۔ بحارالانوار، ج 75، ص 372، ح 9۔

    [7] ۔ تحف العقول ، ص 520۔

    [8] ۔ بحارالانوار:ج 75 ص 372۔