آخری خبریں
- مناسبت » 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
- مناسبت » 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
- مناسبت » 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
- مناسبت » یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
- مناسبت » 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
- مناسبت » 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
- مناسبت » اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
- مناسبت » 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
- مناسبت » 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
- مناسبت » 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
- مناسبت » 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
- مناسبت » 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
- مناسبت » رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
- مناسبت » 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
- مناسبت » 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
اتفاقی خبریں
- پیام » آیت الله سیدعادل علوی بصره(عراق)کےتبلیغی دورےسے واپس آگئے۔
- مناسبت » یکم ذیقعد(1441ھ)ولادت باسعادت حضرت معصومہ سلام اللہ عليہاکے موقع پر
- مناسبت » 25محرم الحرام(1440ھ)شہادت امام زین العابدین علیہ السلام کےموقع پر
- مناسبت » ۲۹ صفر المظفر(1440ھ) امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
- مناسبت » 20جمادی الثانی(1439ھ)ولادت حضرت زہراسلام اللہ علیہاکےموقع پر
- دیدار » الکوثر انٹرنیشنل ٹی وی چنیل کےمسئولین واراکین کےساتھ ملاقات اورتبادلہ خیال
- پیام » بغداداورکوئٹہ کےحادثات پر آیت اللہ سیدعادل علوی کامذمتی بیان
- پیام » مجلہ "الکوثر" کا شمارہ(33)چھپ کرمنظرعام پرآچکا ہے
- مناسبت » 3جمادی الثانی (1441ھ)شہادت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کےموقع پر
- مناسبت » 10ربیع الثانی (1442ھ) وفات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے موقع پر
- مناسبت » 8ربیع الثانی (1441ھ) ولادت امام حسن العسکری علیہ السلام کے موقع پر
- مناسبت » 8 ربیع الثانی(1443ھ ولادت امام حسن العسکری علیه السلام کےموقع پر
- مناسبت » 20جمادی الثانی (1441ھ)ولادت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کےموقع پر
- پیام » "صوت الکاظمین"کےدوشمارے(190اور191)نشر ہوگئے۔
- مناسبت » 11 شعبان (1439ھ) ولادت حضرت علی اکبرعلیہ السلام کےموقع پر
زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
- مناسبت » محرم الحرام(1440ھ)کے پہلے عشرےمیں"مجالس عزا" کا انعقاد
- پیام » مجلہ الکوثرشمارہ"33"میں ماہ محرم(1437ھ)کےمتعلق دومقالیں چھپ چکے ہیں۔
- مناسبت » 13جمادی الاول(1439ھ)ایام فاطمیہ سلام اللہ علیہا کے موقع پر
- مناسبت » 13رجب المرجب (1440ھ) ولادت حضرت علی علیہ السلام کےموقع پر
- مناسبت » 8ربیع الثانی(1440ھ)امام حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت کےموقع پر
- مناسبت » 25رجب(1439ھ)شہادت حضرت امام کاظم علیہ السلام کےموقع پر
- مناسبت » 7 ذی الحجہ (1440ھ)شہادت حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
- مناسبت » 17ربیع الاول (1441ھ) میلاد رسول خدا ﷺ اور امام صادق ؑ کے موقع پر
- مناسبت » یکم رجب(1439ھ)ولادت حضرت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
- مناسبت » 3شعبان(1439ھ)ولادت حضرت امام حسین علیہ السلام کےموقع پر
- خبر (متفرقه) » قرض کی ادائیگی کیلئے۔ ذکریونسیہ "تحفے اورہدایا"۔3
- مناسبت » 5جمادی الاول(1439ھ)حضرت زینب سلام اللہ علیہاکی ولادت کادن
- مناسبت » 15شعبان(1439ھ)ولادت بقیۃ اللہ الاعظم امام مہدی(عج)کےموقع پر
- مناسبت » 3رجب(1439ھ)شہادت حضرت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
- مناسبت » ۲۸صفر المظفر(1441ھ) حضرت رسول اکرم ﷺ کی رحلت کے موقع پر
آپ کا نام موسی اور ان کا لقب کاظم ہے ۔ ان امام کی والدہ گرامی ایک با فضیلت و کرامت بی بی ہیں کہ جن کا نام حمیدہ ہے، اور امام کے والد بزرگوار شیعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام ہیں، امام موسی کاظم علیہ السلام ابواء کے مقام، کہ جو مدینہ کے قریب ایک گاؤں ہے، پر اس دنیا میں تشریف لائے اور سن 183 ہجری قمری میں شہید ہو گئے۔
حضرت امام کاظم علیہ السلام کی امامت کے زمانے میں متعدد غاصب خلفاء نے خلافت کی:
منصود دوانیقی: 136 ہجری سے 158 ہجری تک
محمد معروف بہ مہدی: 158 ہجری سے 159 ہجری تک
ہادی: 159 ہجری سے 170 ہجری تک
ہارون: 170 ہجری سے 193 ہجری تک
حضرت امام کاظم علیہ السلام کی امامت کے ابتدائی دس سال میں کوئی سختی اور مشکلات نہیں تھی۔ انھوں نے اس زمانے میں قرآن کی تعلیم اور اسلامی تعلیم دینے میں مشغول رہے۔
لیکن اس کے بعد دباؤ ، سختی ، ہجرت ، تخویف شروع ہو گئی۔ امام علیہ السلام نے اپنی امامت کا کچھ زمانہ مدینہ میں گزارا تو باقی زمانے میں وہ بغداد میں تھے۔
امام کی زندگی میں سماجی اور دینی پہلو کے علاوہ خداوند کی عبادت اور اس کی بندگی شروع سے آخر تک نمایاں ہے۔
دوران زندگی:
امامت سے پہلے کا دور جو 128 ہجری سے 148 آپ اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق کے ساتھ گزارے، اور امامت کے بعد کا دور 148 ہجری سے 183 تک ہے، جو منصور دوانیقی ،مہدی عباسی ، ہادی عباسی ، اور ہارون رشید پر مشتمل ہے ، سب سے زیادہ آپ کی امامت کا دور عصر ہارون میں تھا جس کی مدت 23 سال تھی اور ہارون عباسی دور کا پانچواں خلیفہ تھا، اس کے دور میں حضرت زیادہ تر قید خانہ میں رہے۔
امام موسی کاظم (ع) کا جہاد:
امام جعفر صادق نے جس روش و طریقے پر اپنی جدوجہد اور منصوبہ بندی کے ذریعہ معاشرے میں اپنا جہاد جاری رکھا ہوا تھا، اسی راستے اور جدوجہد پر امام موسی کاظم نے اپنا جہاد جاری رکھا جس کے چار محور تھے :
پہلا محور:
فکری منصوبہ بندی کرنا، نظریاتی بیداری پیدا کرنا ،نیز منحرف عقائد اور قبائلی ، قومی و مذہبی اختلافات کی چارہ جوئی کے عمل کو آگے بڑھانا ، اس دور کے خطرناک پروپیگنڈوں میں سے ایک الحادی نظریات کی ترویج تھا ، اس کے خلاف امام موسی کاظم کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ مستحکم علمی دلائل کے ساتھ ان سے بحث کرنے کے لیے میدان میں آتے اور ان نظریات کی حقیقت سے دوری اور غیر منطقی ہونے کو آشکار کرتے ، یہاں تک کہ ان نظریات کے حامل لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے اپنی غلطی اور گمراہی کا اعتراف کیا۔
دوسرا محور:
اپنے وفاداروں اور حامیوں کی براہ راست نظارت اور ان کے ساتھ نظم و ہم آہنگی پیدا کرنا ، تا کہ حکومت وقت کو سیاسی طور پر کمزور کرنے ، اس کے ساتھ روابط نہ رکھنے اور سرکاری عدالتوں کی طرف رجوع نہ کرنے کے سلسلے میں مناسب موقف اختیار کیا جا سکے۔
امام کے اس موقف کا اظہار آپ کے ایک ساتھی (صفوان جمال ) کے ساتھ آپ کی گفتگو سے ہوتا ہے ، آپ نے صفوان سے فرمایا :
اے صفوان تمہاری ہر صفت پسندیدہ اور اچھی ہے سوائے ایک چیز کے،صفوان : قربان جاؤں وہ کون سی صفت ہے ؟
امام : تمہارا اپنے اونٹوں کا اس ظالم ( ہارون) کو کرائے پر دینا۔
صفوان: خدا کی قسم میں نے غرور و تکبر جتانے یا شکار و لہو و لعب کے لیے اسے اونٹ کرائے پر نہیں دیئے بلکہ میں نے تو اس سفر (حج) کے واسطے دئیے ہیں ،علاوہ از این میں بذات خود ان کے ساتھ نہیں جاتا ، بلکہ اپنے آدمیوں کو ان کے ساتھ بھیجتا ہوں۔
امام : اے صفوان کیا کبھی تمہارا کرایہ ان کے ذمے ( واجب الاداء ) باقی رہتا ہے ؟
صفوان :میری جان آپ پر فدا ہو، ہاں ایسا ہوتا ہے ۔
امام : اس صورت میں کیا تمہاری خواہش یہ نہیں ہوتی کہ کرائے کی ادائیگی تک وہ زندہ رہیں ؟
صفوان: جی ہاں !
امام :جو کوئی ان کے زندہ رہنے کی تمنا کرے وہ انہی میں سے ہے اور جس کا تعلق ان سے ہو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
اس کے بعد اس کے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی :
وَ لا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُون،(سوره ہود 113)
تیسرا محور:
آپ کا حکام کے مقابلے میں یہ اعلانیہ اور صریح استدلالی موقف اختیار کرنا ، کہ آپ دوسروں کی بہ نسبت خلافت کے زیادہ حقدار ہیں اور دیگر تمام مسلمانوں سے آپ حق خلافت میں مقدم ہیں ۔
قبر رسول خدا (ص) کے پاس ایک جم غفیر کے سامنے آپ نے ہارون کے روبرو اپنا استدلال پیش کیا ،وہاں ہارون نے رسول اللہ کی ضریح کی جانب رخ کر کے یوں سلام کیا :
اے میرے چچا زاد بھائی آپ پر دورد و سلام ہو ،،
اس وقت امام بھی موجود تھے آپ نے رسول اللہ کو یوں سلام کیا :
سلام ہو آپ پر اے میرے پدر بزرگوار ' '
یہ سننا تھا کہ ہارون آپے سے باہر ہو کر سخت طیش میں آ گیا کیونکہ امام نے فخر و عظمت میں اپنی سبقت ثابت کر دی تھی ، چنانچہ مامون نے غیظ و غضب بھرے لہجے میں کہا:
آپ نے ہم سے زیادہ رسول سے قریب ہونے کا دعوی کیوں کیا ؟
امام نے دو ٹوک اور دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا :
اگر رسول اللہ زندہ ہوتے اور تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگتے تو کیا تم اسے قبول کرتے ؟
ہارون نے جواب دیا :سبحان اللہ ! یہ تو عرب و عجم کے سامنے میرے لیے باعث فخر ہوتا۔
امام نے فرمایا : لیکن رسول اللہ مجھ سے میری بیٹی نہیں مانگ سکتے اور نہ میں دے سکتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ہمارے باپ ہیں نہ کہ تمہارے ، اسی لیے ہم تمہاری نسبت آنحضرت سے زیادہ نزدیک ہیں۔
ہارون امام کی دلیل کے آگے منہ کی کھا کر چپ ہو گیا اور امام کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور آپ کو حوالہ زندان کر دیا کیا۔
چوتھا محور:
امت کے انقلابی جذبے کو بیدار کرنے کے لیے علوی انقلابیوں کی ان بغاوتوں اور تحریکوں کی حوصلہ افزائی جن کا مقصد امت مسلمہ کے ضمیر اور اسلامی عزم و ارادے کو ظالم و منحرف حکمرانوں کے آگے سرنگوں ہونے سے بچانا تھا ، امام مخلص علویوں کی مدد بھی فرماتے تھے ،جب شہید فخ حسین بن علی ابن حسن نے امام کے معتقد شیعوں او علویوں کی توہین اور ان پر ہونے والے مظالم کے پیش نظر فاسد ماحول کے خلاف بغاوت کا عزم کیا تو وہ پہلے امام موسی کاظم کی خدمت میں مشہورہ لینے آئے ، امام نے فرمایا: آپ قتل ہو جائیں گے ، پس اپنی تلوار تیز کر لیجئے کیونکہ یہ لوگ فاسق ہیں۔
جب آپ کو حسین کے قتل کی خبر ملی تو آپ نے گریہ فرمایا اور ان الفاظ میں ان کی توصیف کی : خدا کی قسم وہ صالح ، کثرت سے روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے والے اور معروف کا حکم دینے اور منکر سے منع کرنے والے تھے۔ ان کے گھرانے میں ان جیسا کوئی بھی نہ تھا۔
امام کی شہادت
امام موسی کاظم (ع) کو جس آخری قید خانے میں قید کیا گيا تھا، اس کا زندان باں انتہائی سنگدل تھا جس کا نام سندی بن شاہک تھا۔ اس زندان میں امام پر بہت زیادہ ظلم و ستم ڈھایا گيا اور بالآخر ہارون رشید کے حکم پر ایک سازش کے ذریعہ امام کو زہر دے دیا گیا اور تین دن تک سخت رنج و تعب برداشت کرنے کے بعد 55 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
خدا کا درود و سلام ہو اس پر کہ جس کے صبر و استقامت نے دشمنوں کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
السلام على المعذب في قعر السجون وظلم المطامير
السلام على ذي الساق المرضوض بحلق القيود
السلام على الجسد النحيف
السلام على القلب الوجيف
السلام على الكاظم الصابر
السلام على من حارت فيه البصائر
السلام عليك يا باب الحوائج
عليك مني سلام الله مابقيت وبقي الليل والنهار
مولا پہ انتہائے اسیری گزر گئی ۔
آپ کا نام موسی اور ان کا لقب کاظم ہے ۔ ان امام کی والدہ گرامی ایک با فضیلت و کرامت بی بی ہیں کہ جن کا نام حمیدہ ہے، اور امام کے والد بزرگوار شیعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام ہیں، امام موسی کاظم علیہ السلام ابواء کے مقام، کہ جو مدینہ کے قریب ایک گاؤں ہے، پر اس دنیا میں تشریف لائے اور سن 183 ہجری قمری میں شہید ہو گئے۔
حضرت امام کاظم علیہ السلام کی امامت کے زمانے میں متعدد غاصب خلفاء نے خلافت کی:
منصود دوانیقی: 136 ہجری سے 158 ہجری تک
محمد معروف بہ مہدی: 158 ہجری سے 159 ہجری تک
ہادی: 159 ہجری سے 170 ہجری تک
ہارون: 170 ہجری سے 193 ہجری تک
حضرت امام کاظم علیہ السلام کی امامت کے ابتدائی دس سال میں کوئی سختی اور مشکلات نہیں تھی۔ انھوں نے اس زمانے میں قرآن کی تعلیم اور اسلامی تعلیم دینے میں مشغول رہے۔
لیکن اس کے بعد دباؤ ، سختی ، ہجرت ، تخویف شروع ہو گئی۔ امام علیہ السلام نے اپنی امامت کا کچھ زمانہ مدینہ میں گزارا تو باقی زمانے میں وہ بغداد میں تھے۔
امام کی زندگی میں سماجی اور دینی پہلو کے علاوہ خداوند کی عبادت اور اس کی بندگی شروع سے آخر تک نمایاں ہے۔
دوران زندگی:
امامت سے پہلے کا دور جو 128 ہجری سے 148 آپ اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق کے ساتھ گزارے، اور امامت کے بعد کا دور 148 ہجری سے 183 تک ہے، جو منصور دوانیقی ،مہدی عباسی ، ہادی عباسی ، اور ہارون رشید پر مشتمل ہے ، سب سے زیادہ آپ کی امامت کا دور عصر ہارون میں تھا جس کی مدت 23 سال تھی اور ہارون عباسی دور کا پانچواں خلیفہ تھا، اس کے دور میں حضرت زیادہ تر قید خانہ میں رہے۔
امام موسی کاظم (ع) کا جہاد:
امام جعفر صادق نے جس روش و طریقے پر اپنی جدوجہد اور منصوبہ بندی کے ذریعہ معاشرے میں اپنا جہاد جاری رکھا ہوا تھا، اسی راستے اور جدوجہد پر امام موسی کاظم نے اپنا جہاد جاری رکھا جس کے چار محور تھے :
پہلا محور:
فکری منصوبہ بندی کرنا، نظریاتی بیداری پیدا کرنا ،نیز منحرف عقائد اور قبائلی ، قومی و مذہبی اختلافات کی چارہ جوئی کے عمل کو آگے بڑھانا ، اس دور کے خطرناک پروپیگنڈوں میں سے ایک الحادی نظریات کی ترویج تھا ، اس کے خلاف امام موسی کاظم کا طرز عمل یہ تھا کہ آپ مستحکم علمی دلائل کے ساتھ ان سے بحث کرنے کے لیے میدان میں آتے اور ان نظریات کی حقیقت سے دوری اور غیر منطقی ہونے کو آشکار کرتے ، یہاں تک کہ ان نظریات کے حامل لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے اپنی غلطی اور گمراہی کا اعتراف کیا۔
دوسرا محور:
اپنے وفاداروں اور حامیوں کی براہ راست نظارت اور ان کے ساتھ نظم و ہم آہنگی پیدا کرنا ، تا کہ حکومت وقت کو سیاسی طور پر کمزور کرنے ، اس کے ساتھ روابط نہ رکھنے اور سرکاری عدالتوں کی طرف رجوع نہ کرنے کے سلسلے میں مناسب موقف اختیار کیا جا سکے۔
امام کے اس موقف کا اظہار آپ کے ایک ساتھی (صفوان جمال ) کے ساتھ آپ کی گفتگو سے ہوتا ہے ، آپ نے صفوان سے فرمایا :
اے صفوان تمہاری ہر صفت پسندیدہ اور اچھی ہے سوائے ایک چیز کے،صفوان : قربان جاؤں وہ کون سی صفت ہے ؟
امام : تمہارا اپنے اونٹوں کا اس ظالم ( ہارون) کو کرائے پر دینا۔
صفوان: خدا کی قسم میں نے غرور و تکبر جتانے یا شکار و لہو و لعب کے لیے اسے اونٹ کرائے پر نہیں دیئے بلکہ میں نے تو اس سفر (حج) کے واسطے دئیے ہیں ،علاوہ از این میں بذات خود ان کے ساتھ نہیں جاتا ، بلکہ اپنے آدمیوں کو ان کے ساتھ بھیجتا ہوں۔
امام : اے صفوان کیا کبھی تمہارا کرایہ ان کے ذمے ( واجب الاداء ) باقی رہتا ہے ؟
صفوان :میری جان آپ پر فدا ہو، ہاں ایسا ہوتا ہے ۔
امام : اس صورت میں کیا تمہاری خواہش یہ نہیں ہوتی کہ کرائے کی ادائیگی تک وہ زندہ رہیں ؟
صفوان: جی ہاں !
امام :جو کوئی ان کے زندہ رہنے کی تمنا کرے وہ انہی میں سے ہے اور جس کا تعلق ان سے ہو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
اس کے بعد اس کے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی :
وَ لا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِياءَ ثُمَّ لا تُنْصَرُون،(سوره ہود 113)
تیسرا محور:
آپ کا حکام کے مقابلے میں یہ اعلانیہ اور صریح استدلالی موقف اختیار کرنا ، کہ آپ دوسروں کی بہ نسبت خلافت کے زیادہ حقدار ہیں اور دیگر تمام مسلمانوں سے آپ حق خلافت میں مقدم ہیں ۔
قبر رسول خدا (ص) کے پاس ایک جم غفیر کے سامنے آپ نے ہارون کے روبرو اپنا استدلال پیش کیا ،وہاں ہارون نے رسول اللہ کی ضریح کی جانب رخ کر کے یوں سلام کیا :
اے میرے چچا زاد بھائی آپ پر دورد و سلام ہو ،،
اس وقت امام بھی موجود تھے آپ نے رسول اللہ کو یوں سلام کیا :
سلام ہو آپ پر اے میرے پدر بزرگوار ' '
یہ سننا تھا کہ ہارون آپے سے باہر ہو کر سخت طیش میں آ گیا کیونکہ امام نے فخر و عظمت میں اپنی سبقت ثابت کر دی تھی ، چنانچہ مامون نے غیظ و غضب بھرے لہجے میں کہا:
آپ نے ہم سے زیادہ رسول سے قریب ہونے کا دعوی کیوں کیا ؟
امام نے دو ٹوک اور دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا :
اگر رسول اللہ زندہ ہوتے اور تم سے تمہاری بیٹی کا رشتہ مانگتے تو کیا تم اسے قبول کرتے ؟
ہارون نے جواب دیا :سبحان اللہ ! یہ تو عرب و عجم کے سامنے میرے لیے باعث فخر ہوتا۔
امام نے فرمایا : لیکن رسول اللہ مجھ سے میری بیٹی نہیں مانگ سکتے اور نہ میں دے سکتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ہمارے باپ ہیں نہ کہ تمہارے ، اسی لیے ہم تمہاری نسبت آنحضرت سے زیادہ نزدیک ہیں۔
ہارون امام کی دلیل کے آگے منہ کی کھا کر چپ ہو گیا اور امام کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور آپ کو حوالہ زندان کر دیا کیا۔
چوتھا محور:
امت کے انقلابی جذبے کو بیدار کرنے کے لیے علوی انقلابیوں کی ان بغاوتوں اور تحریکوں کی حوصلہ افزائی جن کا مقصد امت مسلمہ کے ضمیر اور اسلامی عزم و ارادے کو ظالم و منحرف حکمرانوں کے آگے سرنگوں ہونے سے بچانا تھا ، امام مخلص علویوں کی مدد بھی فرماتے تھے ،جب شہید فخ حسین بن علی ابن حسن نے امام کے معتقد شیعوں او علویوں کی توہین اور ان پر ہونے والے مظالم کے پیش نظر فاسد ماحول کے خلاف بغاوت کا عزم کیا تو وہ پہلے امام موسی کاظم کی خدمت میں مشہورہ لینے آئے ، امام نے فرمایا: آپ قتل ہو جائیں گے ، پس اپنی تلوار تیز کر لیجئے کیونکہ یہ لوگ فاسق ہیں۔
جب آپ کو حسین کے قتل کی خبر ملی تو آپ نے گریہ فرمایا اور ان الفاظ میں ان کی توصیف کی : خدا کی قسم وہ صالح ، کثرت سے روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے والے اور معروف کا حکم دینے اور منکر سے منع کرنے والے تھے۔ ان کے گھرانے میں ان جیسا کوئی بھی نہ تھا۔
امام کی شہادت
امام موسی کاظم (ع) کو جس آخری قید خانے میں قید کیا گيا تھا، اس کا زندان باں انتہائی سنگدل تھا جس کا نام سندی بن شاہک تھا۔ اس زندان میں امام پر بہت زیادہ ظلم و ستم ڈھایا گيا اور بالآخر ہارون رشید کے حکم پر ایک سازش کے ذریعہ امام کو زہر دے دیا گیا اور تین دن تک سخت رنج و تعب برداشت کرنے کے بعد 55 سال کی عمر میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
خدا کا درود و سلام ہو اس پر کہ جس کے صبر و استقامت نے دشمنوں کو گھنٹے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
السلام على المعذب في قعر السجون وظلم المطامير
السلام على ذي الساق المرضوض بحلق القيود
السلام على الجسد النحيف
السلام على القلب الوجيف
السلام على الكاظم الصابر
السلام على من حارت فيه البصائر
السلام عليك يا باب الحوائج
عليك مني سلام الله مابقيت وبقي الليل والنهار
مولا پہ انتہائے اسیری گزر گئی ۔
زندان میں جوانی و پیری گزر گئی