زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

علماء کے حالات

علماءکےحالات

"آیۃ اللہ العظمیٰ حضرت دلدار علی صاحب  غفرانمآبؒ"

شبہ قارہ ہند کی حکومت اودھ میں علماء اور زعماء اور داعیان نظام دین اسلام کے درمیان آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی صاحب اعلی اللہ مقامہ ،کامرتبہ بہت بلند وبالا ہے آپ کا خاندان شہر رائے بریلی کے قصبہ جائس ونصیرآباد میں ایک عرصہ دراز سے ساکن ہے نصیر آباد کے ایک بہت ہی مقدس ساکن جناب محمدمعین بن عبدالھادی صاحب کو1166ء میں خداوندعالم نے ایک بہت ہی بلند اقبال فرزند عطاکیا۔

نصیرآباد کی ایک بزرگ شخصیت جو اس زمانہ میں باحیات تھے ان کاکہناہے کہ آپ کی ولادت کے موقع پر شب جمعہ آپ کے گھر سے ایک نور ساطع ہوا۔

آپ نے اپنی تعلیم گھر پر شروع کی اور ابتدائی تعلیم تمام کرنے کے بعد گھریلو کاموں میں مصروف ہوگئے۔ایک روز جب آپ اپنے کھیت پر اپنے جانور کی نگرانی کررہے تھے توآپ کو ایک آوازسنائی دی کہ کسی نے آپ سے کہا"اے دلدارعلی اپنی تعلیم کو آگے بڑھاؤ" اس آواز کو سننے کے بعد جو آپ کے لئے ایک غیبی اشاری تھا اپنے اندرونی شوق سے عزم سفر کیا اور متوسطہ تعلیم حاصل کرنے رائے بریلی الہ آبادتشریف لے گئے۔ رائے بریلی میں مولوی باب اللہ، الہ آبادمیں فاضل کامل سید غلام حسینؒ دکنی اور لکھنؤ وسنڈیلہ میں مولاناحیدر علی بن ملاحمداللہ ،کے پاس دروس منقول ومعقول کو تمام کیا۔

شاید یہ وہی زمانہ تھا کہ جب آپ نے ایک غیر مسلم سے یہ قرار داد کی کہ اس کی دکان کی حفاظت کے بدلے اسی جگہ سوئیں گے اوراس دکان کی روشنی میں مطالعہ کریں گے ،اس طرح صبروتحمل کے ساتھ آپ مختلف علوم سے بہرہ مند ہوئے۔

مولوی محمدباقرشمسؒ فرماتے ہیں کہ مولانا دلدار علی صاحب بچپن میں اس قدر ہوش مند وہوشیار تھے کہ اساتیذ کے بعض پیچیدہ مسائل کوبڑے اطمینان سے حل کردیتے اورطلاب آپ کے وجود سے فیضیاب ہوتے، فیض آباد کاوہ واقعہ مشہور ہے کہ اقلیدس کا ایک مسئلہ مورد بحث تھا استاد بارہا توضیح دے رہے مگرمسئلہ پیچیدہ تر ہوتاگیا،مولانا دلدار علی اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے قلم ہاتھ میں لیا اوراس مورد بحث مسئلہ کو حل کردیا۔

مولانا  شاہ جہاں پور میں ملاعبدالعلی سے ملاقات کی انھوں نے ملا احمد کی شرح سلم پر متعدد اعتراضات کئے تھے مولانا نے بحث واستدلال سے تمام اعتراضات کاجواب دیکر ان کومتحیر کردیا ۔

جامع مسجد دھلی میں جب ملا حسن سے ملاقات کی،بحث شروع ہوئی اوراس حد تک پہنچی کہ انہوں نے آپ کی افضلیت کااعتراف کرلیا۔

ہندوستان میں اپنی تعلیم تمام کرکے آپ عراق وایران تشریف لے گئے اور عالم جلیل زعیم زمان مولاناجناب سید محمد باقربہبہانیؒ(وفات 1208ھ)مولانا جناب سید مہدی طباطبائی ؒ(وفات 1212ھ) مولاناسید مہدی موسوی شہرستانی ؒ(وفات 1216ھ)مولانا جناب سید علی صاحبِ ریاض المسائل(1231ھ)طاب ثراھم جیسے علماء سے استفادہ کیا کہ یہ حضرات تاریخ تشیع حوزہ علمیہ نجف وکربلا کے راہنما تھے، ان علماء کے شاگردوں نے شام، ایران، حجاز، ہندوستان،ترکیہ،اورعرب خیلج فارس کی اکثر حکومتوں میں فقہ کی ترویج وتبلیغ کیلئے کافی زحمتیں انجام دیں۔

مولانادلدارعلی نجف کربلااورسامرہ کے اساتیذسے اجازے لینے کے بعد ایران تشریف لے گئے اور شیخ الفقہ والاصول سید مہدی بن ہدایت اللہ اصفہانی کے درس میں شرکت کی ، کچھ مدت قم ومشہد میں بھی گزارا،اور علمابزرگ ایران سے حدیث کے اجازے لیکر وطن تشریف لائے۔

مولاناآقا مہدی ؒ کی ایک روایت سے معلوم ہوتاہے کہ غفرامآبؒ اپنے استاد کو بہت محبوب رکھتے تھے ،اور ان کے معتقد تھے۔البتہ یہ نہیں معلوم کہ استاد سے مرادبہبہائی تھے(کہ جن کی عمر سوسال ،اورعلم وعمل میں اصحاب معصومین کے درجہ تک پہنچے تھے، دین کی تقویت ،مدارس کی وسعت اور اسلامی ممالک کے علماء کی تربیت میں بہت زیادہ کوشش کی) یا کوئی دوسرے۔

جب حضرت غفرامآبؒ لکھنؤ تشریف لائے تو یہاں علوم عقلی علی رغم علوم دینی واصول فقہ اپنے اوج پر تھا ۔شیخ علی خزین ؒ ،شاگردان علامہ تفضل حسین خانؒ،ملاحمداللہ اورملا حسنؒ اس میدان میں پیش پیش تھے، مولانادلدار علی نے بھی علوم معقول میں شہرت پیداکی ،اس زمانہ میں مولانا میرزامحمد عسکریؒ مفتی شہرتھے اور مبلغ پانچ سو روپیہ تنخواہ حکومت سے ملتی تھی ،مولانادلدارعلیؒ ، آیۃ اللہ بہبہائیؒ اورسید علی طباطبائی کے شاگرد شمارکئے جاتے تھے(ایک مجتہد کی حیثیت سے زندگی گزارتے تھے)وہ اگر دولتی منصبوں سے دور تھے لیکن لوگوں کی نگاہ میں ان کابہت احترام تھا،نواب حسن رضا خان نے مولانا دلدار علی صاحب کو نصیر آباد سے لکھنؤ نہایت عزت واحترام کے ساتھ بلایا،مولانانے بھی وہاں تدریس ،تالیف اصول فقہ اوراجتھاد کوکافی وسعت دیکر اخباریوں کے بطلان کوثابت کیا اس زمینہ میں آپ کی کتاب "اساس الاصول"قابل ذکر ہے، آپ نے اپنی پانچ سالہ کوشش میں دوممتاز شاگرد تیار کئے جن میں سے ایک مولا محمدعلی پادشاہ کہ جن کارسالہ"فضیلت نماز جماعت "(جوآصف الدولہ کیلئے لکھاگیا تھا)ہے جس میں اپنے استاد کی بے انتہا تعریف کی۔

سرفرازالدولہ حسن رضاخان  نے مبلغ ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ کتابوں کو خرید کر ایک بڑا اسلامی کتاب خانہ کھولنے کیلئے دیا،درس وبحث شروع ہوئے حکومت مذہب شیعہ لکھنؤ کے سایہ میں مولانا نے دین کی تبلیغ وترویج کی ، انھوں نے قیامت نماز جمعہ ،بدعتوں کے برطرف کرنے اور دروس اجتہاد کی پیش رفت میں بے انتہا کوشش کی، کہ دکن حکومتوں کے بعد حکومت اودھ ترویج واستحکام شیعیت کیلئے شمال ھند میں موثر ترین تھی اور شیعہ وسنی اتحاد میں ایک بڑی کامیابی حاصل کی۔