زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • 7ذی الحجہ(1444ھ)شہادت امام باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 15شعبان المعظم(1444ھ)ولادت امام مہدی (عج) کےموقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    8ربیع الاول(1440ھ)امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کےموقع پر

    8ربیع الاول(1440ھ) امام حسن عسکری  علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر

    امام حسن عسکری  علیہ السلامنے سنہ 232ق میں 10ربیع الثانی یا اسی مہینے کے آٹھویں یا چوتھے دن کو مدینہ میں آنکھ کھولی اور 28 سال تک زندگی فرمائی۔آپ سنہ 233ق اپنے والد کے ہمراہ بچپن میں سامرا آئے اور باقی زندگی ادھر ہی گزاری۔

    شیعوں سے رابطہ

    امام علیہ السلام نے جو زندگی سامرا میں گزاری، ان سالوں کے علاوہ جو قید میں تھے، باقی عادی زندگی تھی اگرچہ آپ کی ہر حرکت حکومت کے زیر نظر تھی واضح ہے کہ اگر امام عسکری علیہ السلام دوسرے اماموں کی طرح آزاد ہوتے تو اپنی زندگی سامرا کے بجائے مدینہ میں گزارتے، آپ کی سامرا میں زیادہ مدت رہنے کی وجہ اس کے علاوہ کہ سامرا کا خلیفہ آپ کو اپنے زیر نظر رکھنا چاہتا ہو کچھ اور نہیں ہے۔ بالخصوص اس مسئلے کی وجہ اہل تشیع کا ایک منظم اور متشکل گروہ جو کافی عرصہ پہلے وجود میں آیا تھا، جو کہ خلیفہ کی نظر میں بہت اہمیت رکھتا تھا اور پریشانی کا باعث بنا اور جس نے وحشت طاری کی۔

    اس لئے امام سے تقاضا کیا کہ ہمیشہ کے لئے حکومت کے سامنے رہیں جیسا کہ امام کے ایک خادم نے یوں نقل کیا، کہ آپ علیہ السلام کو ہر پیر اور جمعرات کو مجبور کیا جاتا تھا کہ دارالخلافہ (کچھ جگہ پر (دار العامہ) کہا گیا کہ جس کا مطلب وہی (دار الخلافہ) ہے) میں حاضر ہوں، یہ حاضر ہونا، اگرچہ ظاہری طور پر آپ کے احترام کے لئے تھا، لیکن حقیقت میں خلیفہ کی جانب سے آپکو کنٹرول کیا جاتا تھا (یعنی امام کو زیر نظر رکھا جاتا تھا)

    اہل تشیع کے لئے امام کو دیکھنا مشکل تھا، جیسا کہ ایک بار، ایسے موقع پر جب خلیفہ صاحب البصرہ (بصرہ کے والی) کو دیکھنے جاتا تھا اور امام علیہ السلامکو بھی اپنے ھمراہ لے جاتا تھا، امام علیہ السلام کے اصحاب اس تمام سفر میں خود کو امام علیہ السلام کے دیدار کے لئے تیار کرتے تھے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام علیہ السلام کی زندگی میں ایسا دور بھی تھا کہ آپ علیہ السلامکو نزدیک سے دیکھنا ممکن نہ تھا۔

    اسماعیل بن محمد کہتا ہے: جہاں سے آپکا گزر ہوتا تھا میں وہاں کچھ رقم مانگنے کے لئے بیٹھا اور جب امام علیہ السلام کا گزر وہاں سے ہوا تو میں نے کچھ مالی مدد آپ سے مانگی۔

    ایک اور راوی نقل کرتا ہے کہ ایک دن جب امام علیہ السلام کو دار الخلافہ جانا تھا ہم عسکر کے مقام پر آپ کو دیکھنے کے لئے جمع ہوئے، اس حالت میں آپ کی جانب رقعہ توقیعی (یعنی کچھ لکھا ہوا) ہم تک پہنچا جو کہ اسطرح تھا: کوئی مجھ کو سلام اور حتیٰ میری جانب اشارہ بھی نہ کرے، چونکہ مجھے امان نہیں ہے، اس روایت سے واضح ہوتا ہے کہ خلیفہ کس حد تک امام اور شیعیان کے درمیان روابط کو زیر نظر رکھتا تھا۔ البتہ امام اور آپ کے شیعہ مختلف جگہوں پر آپس میں ملاقات کرتے تھے اور (سرپوشھای) بھی اس رابطہ کے لئے تھے جو چیز آپ اور شیعوں کے درمیان رابطہ رکھنے میں زیادہ استعمال ہوئی وہ خطوط تھے اور بہت سے منابع میں بھی یہی لکھا گیا ہے۔

    حاکم کی طرف سے شدید محدودیت کی وجہ سے امام علیہ السلام نے اپنے شیعوں سے رابطہ رکھنے کے لئے کچھ نمائندوں کا انتخاب کیا ان افراد میں ایک آپ کا خاص خادم جو کہ بچپن سے ہی آپ کے پاس بڑا ہوا، اور آپ کے بہت سے خطوط کو آپ کے شیعوں تک پہنچاتا تھا۔

    اوروہ شخص جس کا کنیہ ابو الادیان جو کہ آپ کا خادم تھا، اور خط پہنچانا اس کے ذمے تھا۔ لیکن جو امامیہ منابع میں باب کے عنوان سے (امام کا رابط اور نمائندہ) پہنچانا جاتا تھا وہ عثمان بن سعید ہے اور یہی عثمان بن سعید امام حسن عسکری علیہ السلام کی وفات کے بعد اور غیبت صغریٰ کے شروع ہونے میں، پہلے باب کے عنوان سے یا دوسرے لفظوں میں سفیر، وکیل اور امام زمان(عج) کے خاص نائب میں سے تھا۔

    آٹھ ربیع الاول سنہ 260 ہجری کی صبح وعدہ دیدار آن پہنچا، دکھ و مشقت کے سال اختتام پذیر ہوئے۔ قلعہ بندیوں، نظربندیاں اور قید و بند کے ایام ختم ہوئے۔ ناقدریاں، بےحرمتیاں اور جبر و تشدد کا سلسلہ اختتام پذیر ہوئے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام ایک طرف سے قربِ وصالِ معبود سے شادماں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت اور آپ (ص) کی دو امانتوں [قرآن و عترت) کے انجام سے فکرمند، غریب الوطنی میں دشمن کے زہر جفا کی وجہ سے بستر شہادت پر درد کی شدت سے کروٹیں بدل رہے ہیں لیکن معبود سے ہم کلام ہونے کو پھر بھی نہ بھولے اور نماز تہجد لیٹ کر ادا کی وہ بھی شب جمعہ کو؛ جو رحمت رب العالمین کی شب ہے؛ وہی شب جو آپ (ع) کی پرواز کی شب ہے۔

    دیدار سے محرومی

    امام حسن عسکری علیہ السلام چھ سال کے مختصر عرصے تک منصب امامت الہیہ پر فائز رہے اور آپ (ع) کی امامت کا پورا دور محلہ عسکر میں گذرا۔ شیعیان غالبا آپ (ع) کے فیض دیدار سے محروم تھے اور شیعیان و پیروان اہل بیت (ع) کی خبریں اور معلومات چند ہی افراد کے ذریعے امام (ع) کو پہنچتی تھیں اور آپ (ع) کے فرامین اور احکامات بھی ان ہی افراد کے ذریعے شیعیان عالم کو پہنچا کرتے تھے۔ یہ لوگ خفیہ طور پر محلے کی نگرانی کرنے والے فوجی دستوں میں نفوذ کرچکے تھے یا مختلف طریقوں سے محلے میں آمد و رفت کیا کرتے تھے۔

    شہادت

    امام حسن عسکری علیہ السلام قیدوبندکی زندکی گزارنے کے دوران میں ایک دن اپنے خادم ابوالادیان سے ارشادفرماتےہے کہ تم جب اپنے سفرمدائن سے ۱۵/ یوم کے بعد پلٹوگے تو میرے گھرسے شیون وبکاکی آواز آتی ہوگی ۔
    الغرض امام حسن عسکری علیہ السلام کوبتاریخ یکم ربیع الاول ۲۶۰ ہجری معتمدعباسی نے زہردلوادیا اورآپ ۸/ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری کو سامرامیں جمعہ کے دن بوقت نمازصبح خلعت حیات ظاہری اتارکر بطرف ملک جاودانی رحلت فرماگئے"اناللہ وانا الیہ راجعون" ۔آپ کو اپنے پدر بزرگوار کے جوار میں (آپ کے هی مکان میں)دفن کیا گیا۔