زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
مقالوں کی ترتیب جدیدترین مقالات اتفاقی مقالات زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں
■ سیدعادل علوی (28)
■ اداریہ (14)
■ حضرت امام خمینی(رہ) (7)
■ انوار قدسیہ (14)
■ مصطفی علی فخری
■ سوالات اورجوابات (5)
■ ذاکرحسین ثاقب ڈوروی (5)
■ ھیئت التحریر (14)
■ سید شہوار نقوی (3)
■ اصغر اعجاز قائمی (1)
■ سیدجمال عباس نقوی (1)
■ سیدسجاد حسین رضوی (2)
■ سیدحسن عباس فطرت (2)
■ میر انیس (1)
■ سیدسجاد ناصر سعید عبقاتی (2)
■ سیداطہرحسین رضوی (1)
■ سیدمبین حیدر رضوی (1)
■ معجز جلالپوری (2)
■ سیدمہدی حسن کاظمی (1)
■ ابو جعفر نقوی (1)
■ سرکارمحمد۔قم (1)
■ اقبال حیدرحیدری (1)
■ سیدمجتبیٰ قاسم نقوی بجنوری (1)
■ سید نجیب الحسن زیدی (1)
■ علامہ جوادی کلیم الہ آبادی (2)
■ سید کوثرمجتبیٰ نقوی (2)
■ ذیشان حیدر (2)
■ علامہ علی نقی النقوی (1)
■ ڈاکٹرسیدسلمان علی رضوی (1)
■ سید گلزار حیدر رضوی (1)
■ سیدمحمدمقتدی رضوی چھولسی (1)
■ یاوری سرسوی (1)
■ فدا حسین عابدی (3)
■ غلام عباس رئیسی (1)
■ محمد یعقوب بشوی (1)
■ سید ریاض حسین اختر (1)
■ اختر حسین نسیم (1)
■ محمدی ری شہری (1)
■ مرتضیٰ حسین مطہری (3)
■ فدا علی حلیمی (2)
■ نثارحسین عاملی برسیلی (1)
■ آیت اللہ محمد مہدی آصفی (3)
■ محمد سجاد شاکری (3)
■ استاد محمد محمدی اشتہاردی (1)
■ پروفیسرمحمدعثمان صالح (1)
■ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری (1)
■ شیخ ناصر مکارم شیرازی (1)
■ جواہرعلی اینگوتی (1)
■ سید توقیر عباس کاظمی (3)
■ اشرف حسین (1)
■ محمدعادل (2)
■ محمد عباس جعفری (1)
■ فدا حسین حلیمی (1)
■ سکندر علی بہشتی (1)
■ خادم حسین جاوید (1)
■ محمد عباس ہاشمی (1)
■ علی سردار (1)
■ محمد علی جوہری (2)
■ نثار حسین یزدانی (1)
■ سید محمود کاظمی (1)
■ محمدکاظم روحانی (1)
■ غلام محمدمحمدی (1)
■ محمدعلی صابری (2)
■ عرفان حیدر (1)
■ غلام مہدی حکیمی (1)
■ منظورحسین برسیلی (1)
■ ملک جرار عباس یزدانی (2)
■ عظمت علی (1)
■ اکبر حسین مخلصی (1)

جدیدترین مقالات

اتفاقی مقالات

زیادہ دیکھے جانے والے مقالیں

صحیفہ سجادیہ کا تعارف-مجلہ عشاق اہل بیت 10-شوال 1434ھ

صحیفہ سجادیہ کا تعارف

سید توقیر عباس کاظمی

حضرت علی بن الحسین  امام زین العابدین علیہ السلام  سلسلہ امامت سے چوتھے امام ہیں ،  آپ کی شخصیت  سانحہ کربلا کے حوالے سے زیادہ معروف ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ  امام کی ایک اہم  شناخت صحیفہ کاملہ کے حوالے سے بھی  ہے۔

صحیفہ کاملہ سجادیہ حضرت امام زین العابدین ؑ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے جسے آپؑ کے فرزند حضرت امام محمد باقر ؑ نے تحریر کیا اور یہ کتاب ۵۴ دعا پر مشتمل ہے([1])؛بعض محققین کا نظریہ ہے کہ قرآن کریم اورنہج البلاغہ کے بعد  اہمیت کے اعتبار سے صحیفہ سجادیہ تیسری اہم کتاب  ہے جو صدر اسلام میں وجود میں آئی([2])، نیز یہ پہلی کتاب ہے جس کا امام معصوم سے صادر ہونا یقینی ہے اور قرآن کریم کے بعد پہلی تدوین شدہ جامع کتاب ہے جو امام معصوم ؑ کی طرف سے ہم تک پہنچی ہے۔

صحیفہ کاملہ سجادیہ کے حوالے سے ایک حقیقت یہ  ہے کہ تیرہ سو برس سے یہ جلیل القدر کتاب دنیائے اسلام میں موجود ہے لیکن اس پر توجہ نہیں دی گئی،  حتی کہ ہمارے معاشرے کے بہت سے شیعہ مومنین بھی صحیفہ کاملہ  سے واقف نہیں ہیں، اور جو لوگ صحیفہ سجادیہ کو امام زین العابدینؑ کی دعاؤں کے عنوان سے جانتے ہیں اُن میں سے بھی بہت سے لوگ اس کتاب کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں اور نہ ہی اس کی صحیح معرفت رکھتے ہیں۔

صحیفہ سجادیہ کی صحیح معرف نہ ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ عام طور پر اس عظیم کتاب کو صرف  دعا و مناجات کی کتاب کے طور پر پہچانا جاتاہے  اور بہت سے لوگ ان دعاؤں میں حکمت ودانائی، معرفت الہی ، عبدو معبود کے تعلقات، حقوق الناس اور استغفار، تذکیہ وتربیت نفس اور تخلیق کائنات سے متعلق عالیقدر مضامین سے بے خبر دکھائی دیتے ہیں، جبکہ صحیفہ سجادیہ بارگاہ الہی میں راز و نیاز  اور مناجات کا مجموعہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی علوم و معارف کا بیش بہاء خزانہ ہے جس میں اعتقادی، ثقافتی، معاشرتی و سیاسی امور کے ساتھ ساتھ بہت سے کلامی، فلسفی، عرفانی، اجتماعی اور اخلاقی مبانی بھی بیان کئے گئے ہیں، اسی طرح بعض قوانین فطرت  کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں اور  بہت سے احکام شرعیہ بھی بیان ہوئے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ صحیفہ کاملہ سجادیہ کو «اخت ‏القرآن‏»: یعنی قرآن کی بہن،  «انجیل اہل بیت‏»اور «زبور آل محمد»  کہا جاتا ہے([3])، نیز اسے صحیفہ اولیٰ بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ صحیفہ خود امام نے اپنی زندگی میں لکھوا دیاتھا۔

 زیر نظر مقالہ "صحیفہ کاملہ سجادیہ"  کا مکمل تعارف ہے جس میں اس عظیم کتاب کی تدوین  کے پس منظر، صحیفہ کی سند، اس میں قرآنی آیات کے حوالہ جات نیز صحیفہ سجادیہ کے بارے میں علماء ودانشمندوں کے اقوال وبیانات کے ذریعہ اس کتاب کی عظمت کو مختلف پہلوؤں سے اجاگر کرنے کی  کوشش کی گئی ہے، نیز صحیفہ سجادیہ کے مفاھیم کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے اس کی دعاؤں کے عناوین کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

چونکہ صحیفہ کاملہ سجادیہ صرف دعا ومناجات کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ اسلامی معارف کا عظیم خزانہ ہے، اس بنا پر صحیفۂ سجّادیہ کی معرفت کو اسلامی تعلیمات سےآشنائی کے میدان میں ایک اہم قدم کے طور پر جانا جاسکتا ہے۔

صحیفہ سجادیہ کی تدوین کا پس   منظر:

صحیفہ سجادیہ حقیقت میں  امام زین العابدین(ع) کی روحانی اور تبلیغی جدوجہد  کا ایک روپ ہے، صحیفہ سجادیہ کی عظمت کے اس پہلو کا صحیح اندازہ کرنے  کے لئے اس عظیم کتاب کی تدوین کا پس منظر جاننا  نہایت ضروری ہے۔

واقعہ کربلا کے بعد تقریباً چالیس سال پر محیط  عرصہ عام مسلمانوں کے لئے ذہنی اور اخلاقی بگاڑ کا پست ترین دور تھا، جبکہ اس دوران عالم اسلام  ایک  عجیب حالت میں تھا،  کیونکہ امام حسین ؑ کی شہادت کے بعدمدینہ میں سوگ  تھا اور  مکہ میں سراسمیگی، کوفہ میں ندامت تھی اور شام میں پچھتاوا،ایسی صورتحال سے اموی حکمرانوں نے دنیاوی مفادات کے حصول کی خاطر نہ صرف مسلمانوں کے بنیادی عقائد  بلکہ ان کے روز مرہ کے اعمال اور اخلاق کو بھی بے حد متزلزل کردیا، مال وزر سے لوگوں کے ضمیر تبدیل کئے جارہے تھے، قرآن کی غلط تاویل عام تھی، بکی ہوئی زبانوں سے ملوکیت کے قصیدے پڑھے جارہے تھے  اور خریدے ہوئے  قلموں سے اُن کی شان میں کاغذ سیاہ کئے جا رہے تھے۔

ایسے پرآشوب دور میں دین کی تبلیغ اور حفاظت کی ذمہ داری حضرت امام زین العابدینؑ کے شانوں پر تھی، اور امام وقت  ہونے کی حیثیت سےآپؑ کیلئے ضروری  تھاکہ اسلام کے صحیح نظریات کی تبلیغ کریں، لیکن ریاستی جبر وتشدد کے سبب  ایسا ناممکن تھا کیونکہ اموی ظالم و طاغوتی حکومتیں کھلے عام دین کی تبلیغ کے فریضہ کی انجام دہی میں مانع تھیں، چنانچہ امام زین العابدینؑ نے سیاسی ماحول اور عوام کی فکری کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے  ایک نئی حکمت عملی اپنائی  اور ہر طرح کی حکومتی  پابندیوں کے باوجود دین اسلام کی تعلیمات امت تک پہنچانے کا فریضہ نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا ، چنانچہ امام نے مصلے پر بیٹھ کر خضوع و خشوع کے ساتھ نہایت دلگداز لہجے میں اپنے مالک سے دعائیں مانگنی شروع کیں اور اہم اعتقادی مسائل اور اسلامی معارف کو دعا ومناجات  کی صورت میں بیان کیا، آپ نے  ان دعاؤں میں وہ سب کچھ بیان کیا  جو احیائے اسلام، تذکیہ نفس  اور لوگوں کے ضمیر کی بیداری کے لئے ضروری تھا۔

امام زین العابدینؑ نے اپنے بلند اہداف کے حصول اور انسانیت کو جہالت وگمراہی کے دریا میں غرق ہونے سے بچانے کیلئے انہی دعاؤں اور مناجات کو ذریعہ بنایا، انہی دعاؤں اور مناجات کی صورت میں  اسلامی حقائق کا بیان کیا، مسلمانوں کو حق سے منحرف اور دین خدا کی نابودی کے درپے ظالم وجابر حکمرانوں کے ناپاک عزائم سے آگاہ کیا، آپ ؑ نے دعا ومناجات کی صورت میں احکام خدا  کا مذاق اڑانے اور نبوت کے آثار ختم کرنے کے درپے،مسلمانوں پر مسلط ستمگروں اور ظالموں کو رسوا کیا، چنانچہ امام ؑ کا یہ طریقہ تلوار کے ذریعہ جہاد سے کہیں زیادہ مؤثر ثابت ہوا، امام کی ان دعاؤں کوسمجھنے والے سمجھے اور ان کے عقائد کی جلا ہوتی گئی، امام کے پاس آنےوالوں کے ذریعے یہ دعائیں ہزاروں انسانوں تک پہونچی اور بنی امیہ کو پتہ بھی نہ چلا کہ کب اور کس نے ان کے ناپاک حربوں کو ناکام بنادیا۔

امام زین العابدین ؑ کی یہ دعائیں اور مناجات "صحیفہ کاملہ سجادیہ" کے نام سے معروف ہیں،  جو قرآن کریم اور نہج البلاغہ کے بعد عظیم اسلامی حقائق ومعارف کا نہایت قیمتی عظیم خزانہ شمار ہوتی ہیں، یہاں تک کہ اس عظیم کتاب کو  «اخت ‏القرآن‏»،  «انجیل اہل بیت‏»اور «زبور آل محمد» کا نام دیا گیا۔

غرض یہ کہ صحیفہ کاملہ، اسلام کی حقانیت کے دفاع میں بنی امیہ کے خلاف ایک گوشہ سے بلند ہونے والی  وہ آواز ہے جس نے دین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ بنی امیہ کے فرعونوں کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی اور علوم و معارف ِ اسلامیہ کی نشرو اشاعت کا عظیم شاہکار ہے جو باطل کے خلاف کامیاب ہتھیار ثابت ہوا۔

 صحیفہ سجادیہ کی  دعاؤں کے ذریعے امام زین العابدین  نے امت کو  عظمت توحید، ذات الہی کے جبروت، کائنات میں تفکر وتدبر، فرائض عبدیت، تطہیر اخلاق ، تذکیہ روح اور تشکیل سیرت کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔

پس صحیفہ سجادیہ کی تدوین اسلام کی حقانیت کے دفاع اور تبلیغ دین  کی خاطر اُس وقت ہوئی  جب زبان و قلم کی آزادی نہیں تھی، اموی حکمرانوں کی طرف سے شیعوں کے اماموں کو بہت سی پابندیوں کا سامنا تھا، یہی وجہ ہے کہ اُس گھٹن کے ماحول میں امام سجّاد علیہ السّلام کے لئے تفسیرِقرآن، عقائد، احکام اور دیگر علوم کی تعلیم و تدریس معمول کے مطابق ممکن نہیں تھی چنانچہ امام نے بہت سے قرآنی، عقیدتی، فقہی،ثقافتی، اجتماعی اور سیاسی مسائل کو دعا کی صورت میں  بیان کرتے ہوئے دین کی تبلیغ اور امت کی ہدایت کا فریضہ انجام دیا۔

پس صحیفہ سجادیہ ، خدا کے ساتھ راز ونیاز اور اُس کی بارگاہ سے حاجت طلب کرنے کے طریقہ سے آشنائی دلانے کے ساتھ ساتھ اسلامی معارف کا ایک قیمتی خزانہ ہے۔

صحیفہ سجادیہ کی سند:

صحیفہ سجادیہ کی سند کسی شک وشبہ کے بغیر امام سجادؑ تک پہنچتی ہے،یہی وجہ ہے کہ علماء  امامیہ کے نزدیک صحیفہ سجادیہ کی امام زین العابدین علیہ السلام  سے نسبت متواترات اور قطعیات میں سے ہے؛ جیسا کہ شیخ آقا بزرگ تہرانی فرماتے ہیں: «الصحیفة الاولی المنتهی سندها الی الامام زین العابدین۔۔۔ و هی من ‏المتواترات عند الاصحاب لاختصاصها بالاجازة والروایة فی كل طبقة و عصر۔۔۔ ؛ ‏ صحیفہ اولی جس کی سند امام زین العابدین علیہ السلام تک جاپہنچتی ہے، علماء اور اصحاب امامیہ کے نزدیک متواترات میں سے ہے؛ اس  خصوصیت کی بنا پر کہ [ تمام اصحاب و علماء نے اپنے استادوں سے] تمام رجالی طبقات اور تمام ادوار و اعصار میں اس کی نقل و روایت کی اجازت دی ہے»۔

صحیفہ کاملہ کی اسناد کے ضمن میں علما اور شار حین کی اکثریت روایات کے ایک سلسلہ پر متفق ہیں جوابو الفضل شیبانی پر ختم ہو تا ہے، ابو الفضل اس کو دو طریقوں سے روایت کرتے ہیں، رجال کے طویل سلسلہ سے قطع نظر مختصر یہ کہ ایک روایت کے مطابق حضرت امام جعفر صادق ؑ  نے یہ دعائیں امام محمد باقرؑ کے تحریر کردہ نسخہ سے متوکل بن ہارون کو لکھوائی تھیں، اور دوسری روایت کے مطابق حضرت امام زین العابدین کے فرزند جناب زید شہید  کے ہاتھ کا لکھا ہو انسخہ بھی یحییٰ بن زید کے ذریعہ متوکل بن ہارون کی نظر سے گزرا اور انہوں نے دونوں نسخوں کو یکساں مطابق پایا،قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ صحیفہ سجادیہ کی تمام اسناد میں متوکل بن ہارون مشترک راوی ہے۔

متوکل بن ہارون کا بیان ہے کہ امام صادق نے مجھے ٧٥ دعائیں حفظ کروا کے لکھوائیں اس میں سے ١١دعائیں یاد نہ کرسکا باقی ساٹھ سے کچھ زیادہ محفوظ ہیں، یہی دعائیں آج صحیفہ سجادیہ کی صورت میں ہمارے ہاتھوں میں ہیں۔ ان میں سے ٥٤ دعائیں تو صحیفہ کے تمام نسخوں میں شامل ہیں ان کے علاوہ ہفتہ کے دنوں سے مخصوص دعائیں اور دیگر دعاؤں کو ملا کر کل تعداد ٦٨ ہے۔

بہر حال خلاصہ یہ کہ ہماری دسترس میں موجودصحیفہ سجادیہ کی امام زین العابدین ؑ سے نسبت اسی طرح شک و شبہ سے بالاتر ہے جس طرح زبور کی نسبت حضرت داؤدؑ کی طرف اور انجیل کی نسبت حضرت عیسیٰؑ سے ہے، پس  صحیفہ سجادیہ اپنی سند کے لحاظ سے نہایت محکم ہے ۔

صحیفہ سجادیہ  کی محکم سند کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض اہل سنت  علماء نے بھی صحیفہ سجادیہ کی امام زین العابدین ؑ سے نسبت کی تائید کی ہے، مثال کے طور پر ابن جوزی نے خصائص الائمہ میں صحیفہ سجادیہ کا ذکر کیا ہے اور سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی (متوفی 1294) نے ‏صحیفہ کے بارے میں یوں قلم فرسائی کی ہے: ‏«فی ایراد بعض الادعیۃ والمناجاة التی تكون فی الصحیفة الكاملة للامام الہمام زین ‏العابدین۔۔۔ وہی زبور اہل البیت الطیبین علیہم السلام؛ ان دعاؤں اورمناجاتوں کا بیان جو امام ہمام زین العابدین علیہ السلام کے صحیفہ کاملہ میں موجود ہیں ۔۔۔ اور وہ زبور اہل بیت طیبین ہے»([4]

صحیفہ سجادیہ کی عظمت و اہمیت: ‏

صحیفہ سجادیہ کی عظمت و اہمیت مختلف پہلوؤں سے آشکار ہوتی ہے:

۱): صحیفہ سجادیہ متکلّم اور مخاطب کے اعتبار سےخاص اہمیت کا حامل ہے، اس  کی دعائیں امام سجّاد علیہ السّلام جیسے معصوم امام  کا کلام ہے ،  اور اس میں وہ دعائیں اور مناجات موجود ہیں جن کے ذریعہ امام معصوم ؑ  نے اپنے پرودگار سے راز و نیاز کیا ہے۔

۲): صحیفہ سجادیہ اپنی دعاؤں کے عمیق مضامین اور بلند  مفاہیم کی بنا پر بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس کی دعائیں  صرف اللہ تعالی سے طلب حاجت پر ہی مبنی نہیں ہیں بلکہ ان دعاؤں میں علوم ومعارف کا ایک عظیم خزانہ پوشیدہ ہے۔

۳): صحیفہ کاملہ سجادیہ اپنے اسلوب بیان کے لحاظ سے بھی نہایت عظمت واہمیت کا حامل ہے، چونکہ ائمہ معصومین علیہم السلام کے لبوں سے نکلا ہوا کلام، امام الکلام بن جاتا ہے اس بنا پر  صحیفہ کاملہ کی دعاؤں سے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی الحاح و زاری اور مناجات کا فطری احساس پیدا  ہوتا ہے۔

۴): صحیفہ سجادیہ اپنی  معنوی حیثیت کے اعتبار سے بھی نہایت عظمت واہمیت کا حامل ہے اس سلسلہ میں ریاض السالکین (سید علی خان) اس کو کتب سماویہ اور صحف عرشیہ کے قائم مقام سمجھتے ہیں۔

۵):ابن شہر آشوب (متوفی ‏588 ہجری) اپنی کتاب «المناقب» میں  امام سجاد کے معجزات  بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: «بصرہ میں ایک  بلیغ و ادیب شخص کے سامنے صحیفہ کاملہ کی فصاحت و بلاغت کا ذکر ہوا، تو وہ کہنے لگا: اگر کہو تو میں بھی اسی قسم کا صحیفہ لکھ سکتا ہوں، چنانچہ قلم لے کر سرجھکائے  ہوئے لکھنے کیلئے بیٹھ گیا، لیکن اس کے بعد اپنا سر نہ اٹھا سکا یہاں تک کہ مر گیا»‏([5]

۶): صحیفہ سجادیہ کی عظمت واہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ شیعوں کے علاوہ بہت سے اہل سنت علماء نے بھی اس کی بہت سی دعاؤں کو اپنی کتب میں ذکر کیا ہے۔

صحیفہ سجادیہ اور اسلامی تعلیمات:

صحیفہ سجادیہ کی تدوین کے پس منظر میں غور  کرنے سے یہ بات آشکار  ہوتی ہے کہ یہ عظیم کتاب  صرف دعا ومناجات کا مجموعہ ہی نہیں ہے بلکہ اس عظیم کتاب کی دعاؤں اور مناجات نے اسلامی  تعلیمات  کی نشونما اور دین کے احیا میں اہم کردار ادا کیاہے، لہذا اسلامی عقائدکی تعلیم کا میدان ہو یا اخلاق اسلامی  سمجھنے کا مرحلہ،غرض یہ کہ  دینی تعلیمات کے ہر محور میں صحیفۂ سجّادیہ  ایک مطمئن منبع اور مآخذ ہے کیونکہ اس کی بنیاد علم ِ لدنّی پر استوار ہے ۔

 صحیفۂ سجّادیہ میں موجود حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کی زبان ِ مبارک سے جاری ہونے والی دعائیں بہت ظریف اور عمیق اسلامی تعلیمات پر مشتمل ہیں ، یہ دعائیں اور مناجات اپنے گہرے معانی اور مضامین عالیہ کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں، ان دعاؤں میں عبدومعبود کے راز و نیاز اور بندے اور خدا کے صحیح تعلق کی تصویر ایسے انداز میں کھینچی گئی ہے کہ انسان ایک روحانی سرور محسوس کرتا ہے۔

 یہ دعائیں حقیقت میں ایک عظیم درسگاہ ہیں جس میں دین کے اصول وفروع اور اخلاقیات پر بنیادی بحث موجود ہے اور جو فکر انسان کو پرواز کا طریقہ سکھاتی ہیں اور عقل انسانی کو شعور و ادراک کی دولت عطا کرتی ہیں،  یہ دعائیں بند گانِ خدا کے لئے موعظہ وہدایت ہیں جن کو سمجھنے والا نکتہ شناس عارف  اورصاحب بصیرت بن جاتا ہے۔

صحیفہ سجادیہ میں قرآنی آیات کا حوالہ:

          اگر صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں میں دقت کی جائے تو  بہت سی دعاؤں میں قرآنی آیات کا ایک حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے، مصر کے علما  جب صحیفہ کاملہ سے متعارف ہوئے تو انہوں نے اس صحیفہ پربسیط مقالے لکھے جو ہندو ستان کے عربی رسالہ ''الرضوان'' میں شائع ہوئے، سید العلماء علی نقی نقن صاحب نے ان مضامین کا اردو ترجمہ کیا جس کو امامیہ مشن کی جانب سے ''صحیفہ سجادیہ کی عظمت'' کے عنوان سے شائع کیا گیا، اس مختصر کتاب میں علامہ طنطاوی، استاد محمد کامل حسین جامعہ مصر اور استاد احمد جمعہ ابیوتی کلیہ شریعت اسلامی مصر کے تحقیقی مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین میں صحیفہ کاملہ کی دعاؤں کا عالمانہ تجزیہ ان کے تعلیمی اور تبلیغی پہلو اور امت مسلمہ کے لئے ان کی افادیت پر بحث کی گئی ہے۔ علامہ طنطاوی اپنے مقالہ میں صحیفہ سجادیہ کے اسلوب اور قرآن سے مطابقت کا جائزہ لیتے ہوئے  لکھتے ہیں: "بار الہا یہ تیری کتاب قرآن مجید ہے اور یہ اہلبیت کی ایک بزرگ ہستی کے ارشادات ہیں ان میں ایک وہ ہے جو آسمان سے نازل ہوئی ہے اور دوسرا اہلبیت صدیقین میں سے ایک صدیق کی زبان سے نکلا ہوا کلام ہے یہ دونوں آپس میں بالکل متحدہ اور متفق ہیں'' پھر تمام مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: ''اے فرزند ان اسلام، اے اہلسنت ، اے اہل تشیع کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم قرآن اور اہل بیت کے زریں مواعظ وحکم سے سبق حاصل کرو یہ دونوں تمہیں ان علوم و معارف کی تحصیل کی طرف بلا رہے ہیں''۔

صحیفہ سجادیہ قرآن اور اہل بیت کے کلام  کے درمیان حسین ارتباط کا  ایک کرشمہ  بھی ہے، امام زین العابدین نے دعا کے مفہوم کےمطابق قرآن مجید کی آیات کو انتخاب کر کے دعا کے تسلسل میں اس طرح پیوست کیا ہے کہ عام قاری کو قرآن مجید کی آیت  اور امام کے الفاظ میں کوئی فرق نظر نہیں آتا، چنانچہ محققین نے قرآن مجید اور صحیفہ سجادیہ کے ایسے ہی باہمی ارتباط پر تحقیق کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ صحیفہ کی دعاؤں میں تقریباً ٢٢٥ قرآنی حوالے موجود ہیں۔

صحیفہ سجادیہ علماء ودانشمندوں  کی نظر میں:

علماء و محققین نےقرآن اور نہج البلاغہ کے بعد «صحیفہ سجادیہ‏» کو معارف اسلامی  اور حقائق الہی کا عظیم  سرچشمہ شمار کیا ہےجوتیرہ صدیوں سے زاہدین و صالحین کا مونس و انیس اور مشاہیر علماء  کا مرجع و ملجا رہا ہے۔

صحیفہ سجادیہ کی دعائیں حسن بلاغت اور کمال فصاحت کے ساتھ ساتھ معارف اسلامی اورعلوم الہیہ کا  ایسا عظیم مجموعہ ہیں کہ جس کی عظمت کا اقرار کرتے ہوئے  بہت سے علماء ومحققین نے نہایت خوبصورت اور بامعنی جملات کہے ہیں، اگرچہ یہ جملات بھی صحیفہ سجادیہ کی  پوری عظمت کو بیان نہیں کرتے لیکن بہرحال عام افراد کیلئے صحیفہ سجادیہ کی صحیح معرفت کا ذریعہ ضرور ہیں، لہذا ہم نمونہ کے طور پر چند علماء ومحققین کے اقوال  پیش کرتے ہیں۔

صحیفہ سجادیہ شیعہ علماء کی نظر میں:

۱): حضرت امام خمینیؓ نے اپنے وصیت نامہ میں فرمایا: "ہمیں افتخار ہے کہ حیات بخش دعائیں جنہیں قرآن صاعد کہا جاتا ہے، ہمارے آئمہ معصومین سے ہیں،  ہمارے پاس آئمہ کی مناجات شعبانیہ، امام حسین ؑ کی دعائے عرفہ، اور صحیفہ سجادیہ ہے جو زبور آل محمد ہے، اور صحیفہ فاطمیہ  جو اللہ تعالی کی طرف سے الہام شدہ کتاب ہے"۔

۲): مرحوم فیض الاسلام صحیفہ سجادیہ کے بارے میں فرماتے ہیں: "اس کتاب کو جو کوئی اخلاص اور پاک نیت کے ساتھ پڑھے، اور اس کے معانی میں غور وفکر کرے تو فورا اُس کے دل پر نورِ خدا چمکے گا اور اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو کر دنیا وآخرت کی سعادت وکامرانی کے راستے پر گامزن ہو گا"([6]

۳):اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر ، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے "امام سجاد کے حالات زندگی پر تحقیق" کے موضوع پر گفتگو  کرتے ہوئے صحیفہ سجادیہ کے بارے میں فرمایا: "یقینا،صحیفہ سجادیہ ایسی کتاب ہے جو شروع سے آخر تک انسانیت کیلئے عظیم محرکات سے بھری ہوئی ہے، کہ اگر انسان ان کی طرف توجہ کرتے تو یقینا یہی صحیفہ سجادیہ کسی معاشرے کی اصلاح اور اُسے بیدار کرنے کے لئے کافی ہے([7]

۴): صحیفہ کاملہ کی طرز نگارش کے ضمن میں مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین لکھتے ہیں '' دور جاہلیت اور اوائل اسلام میں بھاری اور دقیق الفاظ کی طرز تحریر کا رواج عام تھا جو قبائلی عصبیت کی آئینہ دار تھی اس کا مقصد مد مقابل پر رعب جمانا تھا، اس کے برعکس صحیفہ کاملہ میں سلاست و روانی اور سادہ طرز نگار ش ہے جو اصل فصاحت ہے اس سہل اور دلنشین طرز تحریر کا اصل محرک دعا و مناجات ہے جو کسی مرصع اور مسجع عبارت کے تضح کی محتاج نہیں۔ درد و غم کی آہوں اور کرب و اضطراب کی صداؤں پرمشتمل دعاؤں اور مناجات میں نہ فلسفیانہ الجھاؤ ہیں نہ مظقیانہ پیچ و خم ہیں''([8]

۵): عصر حاضر کے محقق ومجتہد آیت اللہ جعفر سبحانی، صحیفہ سجادیہ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "یقینا یہ کتاب ایک الہی مدرسہ ہے جس میں ہر طرح کی اخلاقی، اجتماعی وسیاسی تعلیمات موجود ہیں، اور ایک معنی میں  تربیت کا آئیڈیل مکتب ہے"([9]

 صحیفہ سجادیہ اہل سنت علماء کی نظر میں:

اگر کوئی حقیقت بین صاحبِ عقل ودانش و فہم وفراست  صحیفہ سجادیہ کو تعصب کی عینک کے بغیر دیکھے تو اُس پر یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ دعائیں کسی عام فرد کا کلام نہیں ہے کیونکہ صحیفہ  سجادیہ کی دعاؤں کے جملات خود ہی اس حقیقت کی طرف رہنمائی  کرتے ہیں کہ یہ جعل سازوں کے اوہام سے  برتر و بالاتر ہے، کیونکہ اس کے اسلوب بیان  اور دعاؤں کے مفاہیم ومعارف سے واضح ہوتا ہے کہ : یہ کلام مخلوق کے کلام سے برتر اور خالق کے کلام سے کمتر ہے؛ یہی وجہ ہے کہ بعض اہل سنت علماء نے بھی صحیفہ سجادیہ کی عظمت کا اقرار کیا ہے جس کی ایک سادہ مثال ذکر کرتے ہیں۔

سنہ 1353 ہجری میں شیعہ مرجع دین مرحوم آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی رحمة اللہ علیہ نے ‏صحیفہ سجادیہ کا ایک نسخہ اہل سنت کے عالم و دانشور اور «تفسیر طنطاوی» کے مؤلف،مفتی ‏اسكندریہ، علامہ طنطاوی کے نام «قاہرہ‏» روانہ کیا۔

علامہ طنطاوی نے صحیفہ وصول کیا اور اس بیش بہاء تحفے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواباً تحریر کیا:«کچھ دن پہلے آپ کا خط مبارک ( اسلام کے زاھد پیشوا علی زین العابدین ابن امام حسین شہید اور ریحانہ مصطفی کے کلمات پر مشتمل کتاب) صحیفہ سجادیہ کے ہمراہ موصول ہوا، میں نے کتاب کو نہایت احترام کے ساتھ لیا اور اسے بے مثال کتاب پایا جو ایسے علوم ومعارف اور حکمتوں پر مشتمل ہے جو اس کے علاوہ کسی جگہ دستیاب نہیں ہیں، یقینا یہ ہماری بدبختی ہے کہ یہ گرانبہاء اور علم و معرفت کا زندہ جاوید خزانہ – جو انبیاء کی میراث ہے – اب تک ہماری دسترس سے خارج تھا، میں جتنا بھی اس میں غور کرتا  اور پڑھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ کلام، خالق کے کلام سے کم تر اور مخلوق کے کلام سے برتر و بالاتر ہے، واقعا یہ کتنی عظیم کتاب ہے»([10]

مصر کے یہ عظیم عالم اور تفسیر الجواہر کے مصنف  صحیفہ کا ملہ کے متعلق رقم طراز ہیں۔ '' علوم و معارف اسلامی کو اس کتاب میں جس انداز سے پیش کیا گیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی''( تفسیر الجواہر)۔

اسی طرح بعض اہل سنت علماء نے اپنی تالیفات میں صحیفہ سجادیہ  کا ذکر کرتے ہوئے اس کی بعض دعائیں نقل کی ہیں جس سے  اہل سنت علماء کی نظر میں صحیفہ سجادیہ کی عظمت واہمیت کی نشاندہی ہوتی ہے، جیسے  شیخ الاسلام قسطنطنیہ شیخ سلیمان قندوزی حنفی نے ''ینابیع المودۃ'' میں اس صحیفہ سے کچھ دعائیں نقل کی ہے([11]

صحیفہ سجادیہ غیر مسلم دانشمندوں کی نظر میں:

 صحیفہ سجادیہ صرف اسلامی معارف پر مشتمل کتاب نہیں ہے بلکہ  یہ عظیم کتاب اپنے اخلاقی ، اجتماعی اور سیاسی مطالب ومفاھیم کے لحاظ سے بھی بے مثال ہے ، یہی وجہ ہے کہ بہت سے غیر مسلم دانشمندوں نے بھی مختلف الفاظ وبیانات کے ساتھ صحیفہ سجادیہ کی عظمت کا اقرار کیا ہے۔

۱): ایران کے "عالمی اسلامی تعلیمات سنٹر" ([12]) کی طرف سے پولینڈ کے مسیحی دانشمند «مسٹر انڈرا کفسکی» کو صحیفہ سجادیہ کا ایک نسخہ بھیجا گیا، اُس نے اس سنٹر کو خط لکھ کر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: میں آپ کی طرف سے بھیجے گئے صحیفہ سجادیہ کے انگلش ترجمہ کا مطالعہ کر رہا ہوں۔۔۔ مجھ پر مسلمانوں کے پیشوا، امام سجادؑ کے نظریات، نہایت مؤثر واقع ہوئے ہیں،  وہ بلند افکار ونظریات جو صحیفہ سجادیہ کے صفحات پر  چمک رہے ہیں، اس عظیم کتاب کے مطالعہ اور اس میں غور وفکر سے اِس کے سرشار مضامین ومعارف میرے روح وروان پر نہایت مؤثر واقع ہوئے ہیں([13]

۲): جب ایران کے اسی مرکز کی طرف سے واٹیکان لائیبریری کو صحیفہ سجادیہ کا ایک نسخہ بھیجا گیا تو لائیبریری انچارج نے شکریہ کا خط بھیجا اور لکھا: ۔۔۔ یہ کتاب بہت سے بلند عرفانی مضامین پر مشتمل ہے، لہذا ہم نے اسےمحققین کے استفادہ کے لئے  لائیبریری میں نہایت مناسب جگہ پر قرار دیا ہے([14])۔ 

صحیفۂ سجّادیہ کی شرحیں اور ترجمے:

          صحیفۂ سجّادیہ کی اہمیت اور اعتبار کے پیش نظرعلماء ومحققین نے اسے خاص  توجہ دی ہے، اور اس کتاب میں موجود اسلامی معارف کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ اسلام میں اب تک اس عظیم کتاب کی بہت سی شرحیں  لکھی گئی ہیں، آقائے بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب ''الذریعہ'' میں اس عظیم کتاب کی ٤۶ شرحوں کی نشاندہی کی ہے جن کی تفصیل مولانا سید علی مجتہد کے اردو ترجمہ کے ملحقات میں موجود ہے ان میں سے اکثر عربی اور چند فارسی میں ہیں۔ ان میں زیادہ معروف سید علی خان کبیر کی شرح'' ریاض السالکین'' سے موسوم ہے( موسسہ در راہ حق)، دیگر شارحین میں محمد باقر بن محمد داماد، ملا محمد تقی مجلسی اول، ملا محمد باقر مجلسی ثانی، اور شیخ بہا جیسے جید علما شامل ہیں۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ان میں سے اکثر شرحیں 11ویں اور 12  ویں صدی ہجری میں لکھی گئی، لیکن بصدافسوس کہ  صحیفہ سجادیہ کی کوئی شرح اردو زبان میں دستیاب نہیں ہے۔

 بہت سے علماء نے اس عظیم کتاب کی دعاؤں کا ترجمہ بھی کیا ہے،اردو تراجم میں علامہ سید محمد ہارون ، سید علی مجتہد، علامہ مفتی جعفر حسین، سید مرتضیٰ حسین ، نسیم امروہوی اور علامہ ذیشان جوادی  کے نام قابل ذکر ہیں، علامہ سید علی کے ترجمہ میں دیگر علما کے مقدمات شامل ہیں، علامہ مفتی جعفر حسین کے ترجمہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ہر دعا کے اختتام پر اس کے مضمرات کی تشریح کی گئی ہے   جو دعا کے عرفانی پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ نسیم امرہوی کے ترجمہ میں دعاؤں کےالفاظ کی تشریح کی گئی ہے، اسی طرح صحیفہ سجادیہ کے بے شمارو فارسی اور دنیا کی دیگر زندہ زبانوں میں بھی ترجمے کئے گئے ہیں۔

صحیفۂ سجّادیہ کی عظمت واہمیت کے پیش نظر کچھ شیعہ علماء نے حدیث کی کتابوں  کی چھان بین کی ہے تاکہ امام زین العابدینؑ کی وہ دعائیں بھی جمع کریں جو مشہور صحیفہ میں موجود نہیں ہیں، جس کے نتیجہ میں صحیفہ سجادیہ ثانیہ، ثالثہ و۔۔۔ تحریر ہوئے جنہیں مستدرکات صحیفہ سجادیہ کہا جاتا ہے۔

صحیفہ سجادیہ کے مفاہیم پر ایک نظر ‏ :

امام سجاد نے اپنے وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام کی بہت سی خالص تعلیمات کو صحیفۂ سجّادیہ کی دعاؤں کی شکل میں بیان فرمایا ہے ، یہی وجہ ہے کہ صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں میں معرفتِ الٰہی ، تخلیقِ کائنات،عالمِ غیب اور فرشتوں،انبیائے کرام کی رسالت ، پیغمبر اکرمﷺ اور اہلبیت علیہم السّلام کے مرتبہ اور منزلت ، اخلاقی محاسن اوربرے اخلاق، انسان کے مختلف حالات ، لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان کے ہتھکنڈوں ، مختلف ایام کی یاد منانے ، سماجی اور اقتصادی مسائل ، تاریخ اور سیرت ، خدا کی قدرت کے مظاہر کی طرف توجّہ دلانے، خدا کی مختلف نعمتوں کی یاد دہانی اور شکر و سپاس کی ذمّہ داری کا احساس بیدار کرنے، قدرت کی انفسی(اندرونی) اور آفاقی (بیرونی ) نشانیوں کی طرف متوجّہ کرنے ، آدابِ دعا ، تلاوت ، نماز وعبادت کے علاوہ دسیوں دیگر اہم موضوعات بھی جلوہ گر ہیں ، اگرچہ صحیفہ سجادیہ دعاؤں کی ایک کتاب ہے لیکن ان دعاؤں کے مضامین میں دین، اخلاقی اقدار، قرآنی تعلیمات ، عبادت اور بندگی کے آداب کو نہایت حسین انداز سے پیش کیا گیا ہے ۔

اگر صحیفہ کاملہ سجادیہ کی  دعاؤں کو عمیق نظر سے دیکھا جائے تو احساس ہوگا کہ ان میں اسرار الٰہی پوشیدہ ہیں اور حضرت امام سجاد علیہ السلام نے دعا اور مناجات کے ضمن میں  بہت ہی مختصر لفظوں میں زندگی کے عظیم حقائق کوبیان کیا ہے، آپ نے دعا ومناجات کے انداز میں ایسے بہت سے مسائل کو بیان کیا گیا ہے جو انسان کی زندگی میں بنیادی اور حیاتی کردار رکھتے ہیں ، اور  جو انسانی سماج اور زندگی کے لئے بہترین درس ہے، اس بنا پر صحیفہ کاملہ کی دعائیں نور کا ایک منارہ اور معارف کا ایک بے کراںسمندر ہیں،ذیل میں صحیفہ سجادیہ کے مفاہیم پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہوئے مختصر سا جائزہ پیش کرتے ہیں:

١۔ توحید  اور خدا سے رابطہ: صحیفہ کاملہ کی دعاؤں میں توحید اور خدا سے رابطہ کے مسائل پر بہت زور دیا گیا ہے، اگرچہ اسلامی معاشرے میں توحید ورسالت وغیرہ کو دین کے بنیادی اصول میں سے شما ر کیا جاتا ہے لیکن اموی دور میں ان بنیادی اصول پر کاری ضرب لگائی جارہی تھی۔ جب علی الاعلان یہ کہا گیا کہ محمدؐ نے حکومت کیلئے ایک کھیل کھیلا تھا وگرنہ نہ کوئی وحی آئی نہ ہی کوئی فرشتہ ؛ ایسے نازک حالات میں امام سجادؑ نے دعا کی صورت میں دین کے بنیادی اصولوں کی تعلیم دی،  توحید الہیٰ کے ذکر کی ایک مثال پہلی دعا میں ہے جہاں امام فرماتے ہیں: ''الحمدلّٰلہ الا ول بلا اول و الآخر بلا آخر یکون بعدہ '' (تعریف اس خدا کی جو ایسا اول ہے جس کے پہلے کوئی اول نہ تھااور ایسا آخر جس کے بعد کوئی آخر نہ ہوگا)۔

٢۔اللہ تعالیٰ کی صفات: صفات باری تعالیٰ میں عدل ایک ایسا وصف ہے کہ اگر انسان اس کی ماہیت سمجھ لے تواس کے تمام اعمال میں ایک توازن اور تنازسب قائم رہ سکتا ہے بنی امیہ نے اپنے اعمال اور ظلم کی پردہ پوشی کے لئے یہ عقیدہ پھیلا نا شروع کیا تھا کہ خدا کے لئے عدل ضروری نہیں۔ امام کی دعاؤں میں جابجا خدا کی صفات کا موثر الفاظ میں بیان موجود ہے۔ بالخصوص یوم عرفہ کی دعا اس ضمن میں ایک شاہکار ہے۔

٣۔رسالت اور امامت کا مرتبہ : بنی امیہ نے اپنے ابتدائی دور میں رسولؐ  اور عترت رسولؑ  کے خلاف سب و ششم کی جو مذموم تحریک شروع کی تھی یزید نے اسے جنگ میں بدل دیا اور سانحہ کربلا و اقع ہوا، لیکن پھر امام نے اپنی دعاؤں کے ذریعہ عترت رسولؑ  کی منزلت سے روشناس کرایا، ایک دعا میں ان الفاظ میں محمد اور آل محمد (ص) کی فضیلت کا تذکرہ کیا ہے۔ وجعلتھم و رثتہ الانبیاء وختم بھم الاوصیا والا ئمہ وعلمتھم علم ما کان وما بقی ( اور آل محمد (ص) کو انبیاء کا وارث بنایا، ان پر اولیا اور اماموں کا سلسلہ ختم کیا اور انہیں ماضی حال ، اور مستقبل کا علم عطا کیا۔ )

٤۔ محمد وآل محمد پر درود : صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں میں "محمد وآل محمد پر صلوات" کے جملات بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں، بہت سی دعاؤں کے شروع اور آخر میں بھی صلوات کا تکرار ہوا ہے،  اور یہ دعائیں اُس زمانے کی ہیں جب بنی امیہ کی طرف سے "علی" نام رکھنا بھی ناقابل معافی جرم شمار کیا جاتا تھا، اور حضرت علی ؑ پر سَب کرنا حکومت کے ساتھ قربت کا ذریعہ تھا، ایسے حالات میں دعاؤں کے درمیان اتنی کثرت سے "محمد وآل محمد پر صلوات" کی تکرار تبلیغی لحاظ سے نہایت اہم مسئلہ ہے۔

٤۔ کائنات میں غور وفکر: قرآن میں جا بجا قدرت کی تخلیقات کی طرف اشارہ ہے، عام آدمی کو منطق اور فلسفہ سے دلچسپی نہیں ہوتی وہ ٹھوس ثبوت چاہتا ہے اسی مناسبت سے امام نے دعا ؤں میں کائنات کے مظہر ، رات اور دن کے وجود ، چاند کی مخصوص مدار میں گردش ، اس کا بڑھنا، گھٹنا، گرہن لگنا، آندھی اور بجلی کا قدرت کا نشانیوں کے طور پر اپنی دعاؤں میں ذکر کیاہے۔ سائنسی ترقی کے نتیجہ میں ان سر بستہ رازوں پر سے پردہ اٹھ رہا ہے اور ان کی صداقت عیاں ہو رہی ہے لیکن سو سال پہلے ان امور پر بحث کرنا اسی کا کام ہے جو علم کائنات جانتا ہو، مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین نے سائنسی انکشافات بالخصوص اجرامِ فلکی کے وزن کے متعلق ایک تفصیلی نوٹ دیاہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔

٥۔ توبہ و استغفار: جب امام سجاد ؑ کی زبان مبارک سے ادا ہونے والے الفاظ سے صحیفہ سجادیہ ترتیب پا رہا تھا اُس دور میں فسق و فجور عام تھا اور گناہوں کے ارتکاب میں نہ صرف بے شرمی تھی بلکہ دلیری بھی تھی لہذا  ضروری تھا کہ امامؑ،  نوجوانوں کو توبہ  و استغفار، سوزوگداز اورخضوع و خشوع کے راستے دکھائیں جو دعا کی بنیاد اور تقویٰ کی ر وح ہے ۔چنانچہ صحیفہ سجادیہ میں  توبہ واستغفار کی بے شمار مثالیں ہیں۔

۶: سیاسی امور سے متعلق دعائیں : امام علیہ السلام نے دعاؤں کے ضمن میں سیاسی امور – خاص طور پر امامت اور امت کی رہبری کے امور – بھی موضوع سخن بنائے ہیں، ذیل میں چند دعاؤں کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں:

‏‏1۔ امام سجاد علیہ السلام "دعائے مكارم الاخلاق" میں فرماتے ہیں: ‏

«خدایا! محمد اور آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) پر درود بھیج  اور مجھے ان لوگوں کے مقابل طاقت و قوت عطاکر جو مجھ پر ظلم روا رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے خلاف برہان و زبان عطا کر جو میرے ساتھ نزاع اور جھگڑا کرتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل فتح و کامرانی عطا فرما جو میرے ساتھ عناد و عداوت برتتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل راہ و تدبیر عطا کر جو میرے بداندیش ہیں اور میرے خلاف حیلہ گری اور مکر کاسہارا لیتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل مجھے طاقت و قدرت عطا فرما جو مجھے آزار پہنچاتے ہیں اور ان لوگوں کے مقابل قوت تردید عطا فرما جو میری عیب جوئی  اور دشنام طرازی کرتے ہیں [تا کہ میں ان کی تہمتوں کو جھٹلا سکوں] اور دشمنوں کے خطرات کے مقابل مجھے امن و سلامتی عطا فرما۔۔۔»

امام سجادؑ کی دعاء کا یہ حصہ در حقیقت اموی حکومت اور عبدالملک کے عُمّال، خاص طور پر مدینہ کے والی «ہشام بن اسماعیل مخزومی‏» کے ظلم و تشدد اور اس کی دھمکیوں کے مقابل امام علیہ السلام کی شکایت پر مشتمل ہے؛  جو اس دعاء کا سیاسی پہلو شمار ہوتاہے۔ ‏

‏2۔ صحیفہ سجادیہ کی ایک اور دعا میں امام فرماتے ہیں: ‏

‏        «خدایا! یہ مقام و منزلت [یعنی خلافت اور امامت] تیرے خاص جانشینوں اور برگزیدہ بندوں کے لئے ہے اور یہ مراکز اور ادارے تیرے امناء کے لئے مخصوص ہیں؛ [جن کو تو نے اعلی مقام عطاء کیا ہے مگرستمگروں اور ظالموں  [اموی خلفاء]نے ناحق ان پر قبضہ جما رکھا ہے اور انہیں غصب کر رکھا ہے ۔۔۔»پھر فرماتے ہیں: «تیرے برگزیدہ بندے اور خلفاء مغلوب و مقہور ہوچکے ہیں [یعنی خاموشی پر مجبور ہیں] جبکہ دیکھ رہے ہیں کہ تیرے احکام تبدیل کردئیے گئے ہیں؛ تیری کتاب معاشرے کے روزمرہ امور سے باہر کرکے رکھ دی گئی ہے؛ تیرے فرائض اور واجبات تحریف کا شکار ہوچکے ہیں اور تیرے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی سنت و سیرت ترک کردی گئی ہے۔

خدایا! اولین و آخرین میں سے اپنے برگزیدہ بندوں کے دشمنوں اور ان کے اتباع اور پیروکاروں اور ان کے اعمال پر راضی و خوشنود ہونے والوں پر لعنت بھیج اور انہیں اپنی رحمت سے دور فرما۔۔۔۔»([15])۔ ‏

اس دعاء میں امام سجاد علیہ السلام صراحت کے ساتھ امامت اور امت کی رہبری کی بات کی ہے جو کہ اہل بیت علیہم السلام کے لئے مختص ہے اور فرمایا کہ یہ عہده ظالموں اور ستمگروں نے غصب کررکھا ہے،  اس طرح  امام سجادؑ نے دعا کے انداز میں«بنو امیہ کی حکمرانی کی شرعی اور قانونی حیثیت کی نفی کی نیز یہ کہ اس دعاء میں دیگر خلفاء اولین کی مشروعیت پر بھی تنقید محسوس ہوتی ہے۔ ‏

‏3۔ "دعائے عرفہ"  میں امام سجادؑ نےفرمایا:

«پروردگارا! درود بھیج خاندان نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم﴾ کے پاک ترین افراد پر جنہیں تو نے امت کی رہبری اور اپنے اوامر کے نفاذ کے لئے منتخب کیا ہے اور انہیں تو نے اپنے علوم کے لئے خزانہ دار، اپنے دین کے لئے نگہبان، روئے زمین پر اپنا جانشین اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قراردیا ہے اور اپنی ہی مشیت سے انہیں ہر قسم کی پلیدی اور رجس سے یکبارگی کے ساتھ پاک و مطہر فرما دیا ہے۔۔۔  خدایا! تو نے ہر زمانے میں ایک امام کے ذریعے اپنے دین کی تائید فرمائی ہے اور اس کو تو نے اپنے بندوں کے لئے رہبر و پرچمدار اور کائنات میں مشعل ہدایت قرار دیا ہے، بعد از آں کہ تو نے اس کو غیب کے رابطے کے ذریعے اپنے آپ سے مرتبط و متصل کردیا ہے اور اپنی خوشنودی کا وسیلہ قراردیا ہے اور اس کی پیروی کو لوگوں پر واجب قرار دیا ہے اور لوگوں کو اس کی نافرمانی سے منع فرمایا ہے اور خبردار کیا ہے اور تو نے لوگوں کو حکم دیا ہے کہ اس کے اوامر اور نواہی کی تعمیل کریں اور تو نے ہی مقرر فرمایا ہے کہ کوئی بھی ان سے سبقت نہ لے اور ان سے آگے نہ چلے، اور کوئی بھی ان کی پیروی میں پیچھے نہ رہے [اور ان کی حکم عدولی نہ کرے]۔۔۔»

امام علیہ السلام نے اس دعاء میں رہبران الہی اور خاندان نبوت کے ائمہ کے کردار اور خاص مقام و منزلت سمیت ان کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے نہایت دقیق الفاظ اور جملات کے ذریعے اس زمانے کے حکمرانوں کی حاکمیت کی شرعی و قانونی حیثیت کو نشانہ بناتے ہوئےثابت کیا ہے کہ حکومت کی مشروعیت [قانونی و شرعی جواز] خداوند متعال کے انتخاب سے حاصل ہوتی ہے، نہ طاقت وقدرت کے زور پر اور نہ ہی عوامی بیعت کی بنا پر ۔۔۔

ان مطالب کے علاوہ صحیفہ میں اقتصادیات ،  اتحاد بین المسلمین  اور دیگر ہزاروں موضوعات سے متعلق امور کے حوالے بھی موجود ہیں، غرض  یہ کہ  صحیفہ سجادیہ، علوم و معارف کا ایک عظیم خزانہ ہے، یہ قدسی صفات بندہ کی اپنی پوری عبودیت سے مناجات الہیٰ ہے جو تاریک دلوں کو روشنی اور زنگ آلود ضمیر میں نکھار پیدا کرتی ہے۔  پس صحیفہ سجادیہ بارگاہ الہی میں راز و نیاز و مناجات اور بیان حاجات ہی کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ اس کے سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور اعتقادی پہلو بھی ہیں۔

 صحیفہ سجادیہ  بطور دعاؤں کا مجموعہ:

یوں تو دعاؤں کی کتابیں بہت زیادہ ہیں ، رائج اور منقول دعاؤں کی بھی کمی نہیں ہے لیکن ان دعاؤں کی سندیّت بہت زیادہ ہوا کرتی ہے اور ان کے مفاہیم زیادہ دلنشین ہوا کرتے ہیں جن کی سند زیادہ محکم ہو اور جن کے بارہ میں یہ یقین ہو کہ یہ معصوم کی زبانِ مبارک سے جاری ہوئی ہیں ۔ شیعہ علماء نے مختلف صدیوں میں دعا کی مختلف کتابیں تالیف کی ہیں جن میں مختلف اوقات ، دنوں اور مواقع سے مخصوص دعاؤں کو جمع کیا گیا ہے ، اس سلسلہ میں سید ابن طاؤس کی کتاب اقبال ، کفعمی کی کتاب البلد الامین ، سید ابن طاؤس کی کتاب جمال الاسبوع ، قطب راوندی کی الدّعوات ، ابن فھد حلّی کی عدّۃ الدّاعی ، کفعمی کی المصباح ، شیخ بہائی کی مفتاح الفلاح ، اور محدّث قمی کی مفاتیح الجنان کا نام لیا جاسکتا ہے ۔

لیکن صحیفۂ سجّادیہ کو ان تمام کتابوں میں ایک خاص مقام حاصل ہے ،  کیونکہ اس عظیم کتاب میں مذکور دعائیں حسن بلاغت، کمال فصاحت کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہیں، دعاؤں کی تعبیرات میں  خوبصورتی انسان کو معنوی قدرت وبلندی کا احساس دلاتی ہے، صحیفہ سجادیہ دعاؤں کا ایک مجموعہ ہونے کے لحاظ سے ایسی فردی مناجات اور راز ونیاز پر مشتمل ہے جو کہ ایک انسان اپنی زندگی کی مشکلات کے بحران میں اپنے خدا کے ساتھ خلوت تنہائی میں بیان کرتا ہے، یہ عظیم کتاب دعا ونیایش کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کی دعاؤں اور مناجات سے  پروردگار کی عظمت  وقدرت  کے سامنے انسان کی عاجزی  وناتوانی کا احساس بیدار ہوتا ہے، خالق کی عظمت کے سامنے عجز وانکساری کے احساس پر مشتمل الفاظ وعبارات سے انسان کی روحانی تربیت ہوتی ہے۔

تاریخی اور رجالی کتب کے علاوہ دعاؤں کی کوئی بھی معتبر کتاب ایسی نہیں ہے جس میں صحیفہ سجادیہ کی دعائیں ثبت نہ ہوئی ہوں، بلکہ حقیقت یہ  ہے کہ دعاؤں کی کتب تحریر کرنے والے علماء نے صحیفہ سجادیہ ہی کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی کتب کو تحریر کیا ہے۔ جیسے:

1۔ «مصباح المتہجد» شیخ طوسی (385 - 460)۔ ‏

‏2۔ «سلوك الحزین‏» قطب الدین بن سعید بن ہبة  اللہ راوندی (متوفی ‏573)  کی کتاب «دعوات الراوندی‏»۔‏

‏3۔ سید علی بن حسین بن باقی کی کتاب «اختیار المصباح‏»۔ ‏

‏4۔ سید رضی الدین علی بن طاؤس (متوفی‏589) کی کتابیں ‏«اقبال الاعمال»، «جمال الاسبوع» اور «فتح الابواب‏»۔ 

‏5۔ ابوالقاسم علی بن رضی الدین کی کتاب «زوائد الفوائد» ‏۔

‏6۔ ابراہیم بن علی كفعمی (متوفی 868) کی کتاب «البلد الامین‏» وغیرہ۔ ۔۔ ‏

ہماری دسترس میں موجود صحیفہ کاملہ سجادیہ ۵۴ دعاؤں پر مشتمل ہے جس کی پہلی دعا اللہ تعالی کی حمد وثنا کے بارے میں ہے اور آخری دعا "پریشانیوں سے دوری" کے بارے میں ہے،خدا کے ساتھ راز و نیاز اور مناجات و ارتباط کے باب میں ایسی دعائیں ہیں جو سال میں ایک دفعہ پڑھی جاتی ہیں جیسے دعائے عرفہ اور ماہ رمضان کی دعائے وداع؛ بعض دعائیں مہینے میں ایک بار پڑھی جاتی ہیں جیسے: دعائے رؤیت ہلال؛ بعض ہفتہ وار ہیں  اور بعض دعائیں ہر شب و روز کے لئے ہیں۔ ‏

دعاؤں کی ایک کتاب کی حیثیت سے صحیفہ سجادیہ کے مضامین کا تناظر بہت وسیع ہے۔ اس کی٤ دعاؤں اور مناجات کی مقاصد کے اعتبار سے حسب ذیل تقسیم ہو سکتی ہے۔

١۔ عبادات اور تقویٰ سے متعلق دعائیں: حمد و ثناء ، انبیاء، محمد و آل محمد (ص) اور فرشتوں کا ذکر ، طلب مغفرت، طلب رحمت، موت کا ذکر، مکارم الاخلاق، توبہ اور ادائے شکر کی دعائیں۔

٢۔ حقوق العباد سے متعلق دعائیں:ان میں والدین ، اولاد ، دوست، ہمسایہ اور حدود مملکت کی نگرانی کرنےوالوں کے لئے دعائیں۔

٣۔ انسانی ضروریات کی تکمیل کی دعائیں: حاجت برداری، داد خواہی، بیماری سے نجات، ادائے قرض، وسعت رزق اور دشمنوں سے بچاؤ کی دعائیں۔

٤۔ خاص مواقع کی دعائیں: صبح و شام نماز شب ، ایام ہفتہ ، رویت ہلال، عیدیں، جمعہ ، عرفہ ، ماہ صیام اور ختم قرآن کی دعائیں۔

صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں کے عناوین:

صحیفۂ سجّادیہ ۵۴ دعاؤں پر مشتمل ہے ، ان میں سے بعض دعائیں مفصّل اور طویل ہیں اور کچھ دعائیں نسبتاً مختصر ہیں۔ 
ان دعاؤں کو پڑھنے کی مختلف مناسبتوں اور مواقع کو صحیفۂ سجادیہ کی فہرست میں بیان کیا گیا ہے ، اس سلسلہ میں اس کی فہرست کی طرف رجوع کیا جا دسکتا ہے ، ان دعاؤں  کے عناوین اور مختصر وضاحت  درجِ ذیل ہیں:

(۱)اللہ تعالی کی حمد وثنا: (یہ دعا اللہ تعالی کی بعض صفات کے بیان پر مشتمل ہے، اس دعا میں امام سجاد نے اللہ تعالی کے بارے میں جو تصور پیش کیا ہے وہ ہمارے ذہنوں میں موجود تصور سے بہت مختلف ہے)؛ (۲)محمدو آل محمد پر درود: (صحیفہ سجادیہ کی دعاؤں میں پیغمبر اکرم  ﷺ پر صلوات  کو بہت زیادہ استفادہ کیا گیا ہے، اور بہت سی دعائیں آپؐ پر صلوات سے شروع اور صلوات  پر ہی ختم ہوتی ہیں)؛ (۳) حاملان عرش پر درود؛ (۴)انبیاء کے پیروکاروں  پر درود: اس دعا میں انبیاء پر ایمان لانے والوں پر درود ورحمت کا سوال کیا گیا ہے؛ (۵) اپنے اور اپنے رشتہ داروں کے حق میں دعا: امام سجادؑ نے اس دعا میں احکام کے فلسفہ کو بیان کیا ہے، اور اس سے ملتا جلتا بیان پہلی دعا میں بھی ہے؛ (۶)صبح وشام کی دعا؛ (۷)اہم کاموں کے وقت کی دعا؛ (۸)مشکلات و مصائب سے پناہ طلب کرنے کے لئے دعا؛ (۹)بخشش کے شوق میں دعا: اس دعا میں امام سجادؑ نے محمد وآل محمدؑ پر درود وسلام کے ذریعہ اللہ تعالی سے معافی اور بخشش کی دعا تعلیم فرمائی ہے؛ (۱۰) اللہ تعالی کی پناہ حاصل کرنے کے لئے دعا؛ (۱۱) نیک انجام کے لئے دعا؛ (۱۲)گناہوں کے اعتراف اور اللہ سے توبہ کی درخواست پر مشتمل دعا؛ (۱۳) اللہ تعالی سے حاجت طلب کرنے کے لئے دعا؛ (۱۴) جب کوئی امام پر ظلم کرتا  یا جب آپ ظالمین کے ناپسند کردار کو دیکھتے تو دعا کرتے؛ (۱۵) بیماری کی حالت میں یا مصیبت وپریشانی کے وقت کی دعا؛ (۱۶) گناہوں کی معافی یا عیوب کی بخشش کے لئے آہ و زاری؛ (۱۷)شیطانِ مردود سے خدا کی پناہ مانگنے کے لئے دعا: اس دعا میں امام سجادؑ نے شیطان کے مکر وفریب، اسکے حیلوں اور  ناپاک عزائم واھداف کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی سے شیطان کی پناہ طلب کی ہے؛ (۱۸) جب کوئی پریشانی دور ہو جاتی یا کوئی آرزو جلد پوری ہو جاتی: اس  دعا میں امام  سجادؑ نے اللہ تعالی کی حمد کرتے ہوئے پریشانی کے دور ہو جانے یا کسی آرزو کے جلد پورا ہو جانے پر اللہ تعالی کا شکریہ  ادا کیا ہے؛ (۱۹)قحط کے بعد بارش کے لئے دعا؛ (۲۰) اچھے اخلاق کے حصول  کیلئے دعا: اس دعا میں امام سجادؑ نے انسان کے لئے ایک تدریجی تربیتی ٹائم ٹیبل پیش کیا ہے؛ (۲۱)پریشانی اور غم کے وقت کی دعا؛ (۲۲)سختی  اور مشکلات کے وقت کی دعا؛ (۲۳) اللہ سے تندرستی اور عافیت طلب کرنے کی دعا؛ (۲۴) والدین کے لئے دعا: اس دعا میں امام سجادؑ نے والدین کی نعمت پر تاکید کرتے ہوئے  اولاد پر والدین کے حقوق کو  بیان فرمایا ہے؛ (۲۵) اولاد کے لئے دعا: اس دعا میں امام سجادؑ نے  والدین پر اولاد کے حقوق اوراولاد کی تربیت  کیلئے والدین کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے؛ (۲۶)پڑوسیوں اور دوستوں کے لئے دعا؛ (۲۷)سرحدوں کے محافظوں کے لئے دعا: (امام سجادؑ نے اس دعا میں اسلامی معاشرے کے اجتماعی مسائل کو بیان کیا ہے)؛ (۲۸) اللہ تعالی کی پناہ  کے وقت کی دعا؛ (۲۹) تنگدستی کے وقت کی دعا: اس دعا میں امام سجادؑ نے رزق کی وسعت کے لئے دعا فرمائی ہے؛ (۳۰) قرض کی ادائیگی کے لئے دعا؛ (۳۱) توبہ کے لئے دعا؛ (۳۲)نماز شب (نماز تہجد) کے بعد کی دعا: اس دعا میں امام سجادؑ  انسان کے ضعف وکمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کائنات کے نظام میں صلوات کی اہمیت کو بھی بیان کیا ہے، نیز دعا کے آخر میں جہنم کے حالات کو بھی بیان فرمایا ہے؛ (۳۳)استخارہ  (اللہ تعالی سے طلب خیر) کے وقت کی دعا؛ (۳۴) پریشانی یا کسی کو گناہ کی رسوائی میں مبتلا دیکھ کر دعا؛ (۳۵)ثروتمندوں کو دیکھ کر اپنی حالت پر خدا سے رضایت کی دعا؛ (۳۶) رعد وبرق کے وقت کی دعا؛ (۳۷) خدا کے شکر کی دعا؛ (۳۸)معذرت سے متعلق دعا؛ (۳۹) عفو ورحمت کی درخواست؛ (۴۰) موت کی یاد آنے پر دعا؛ (۴۱) پردہ پوشی اور حفاظت کی دعا؛ (۴۲)ختم قرآن کی دعا: (اس دعا میں امام سجادؑ نے قرآن کا تعارف کرواتے ہوئے اس کی عظمت بیان کی ہے)؛ (۴۳)نئے مہینہ کا چاند دیکھنے کے وقت کی دعا؛ (۴۴) ماہ رمضان کی آمد پر دعا: (امام سجادؑ نے اس دعا میں ماہ رمضان کی فضیلت اور اس کی  برکات کو بیان کیا ہے)؛ (۴۵) ماہ رمضان کے وداع کی دعا: (اس دعا میں امام سجادؑ نے قرآن اور ماہ رمضان کی فضیلت بیان کرتے ہوئے پیغمبر اکرم ﷺ کو کائنات کا محور قرار دیا ہے)؛ (۴۶)عید فطر اور جمعہ کے دن کی دعا؛ (۴۷)دعاء عرفہ: (یہ صحیفہ سجادیہ کی سب سے طولانی دعا ہے،اس دعا میں امام سجادؑ نے اللہ تعالی کی توصیف وتمجید بیان کی ہے)؛ (۴۸)عید قربان اور جمعہ کے دن کی دعا؛ (۴۹)دشمنوں کے حیلوں سے بچنے کی دعا: (اس دعا میں امام سجادؑ نے اسلامی معاشرے کے اجتماعی مسائل کو بیان کیا ہے)؛ (۵۰)اللہ تعالی سے مکمل وابستگی کے بارے میں دعا؛ (۵۱)تضرع اور عاجزی وانکساری کی دعا؛ (۵۲)اللہ تعالی کے سامنے اصرار کی دعا؛ (۵۳)اللہ تعالی کے سامنے خشوع وخضوع کے اظہار کی دعا؛ (۵۴)ھم ّوغم کی دوری کے لئے دعا۔

حوالہ جات



[1] ترجمہ وشرح صحیفہ کاملہ سجادیہ (سید علی نقی فیض الاسلام): مقدمہ ص ۳، مرکز نشر آثار فیض الاسلام، تھران،طبع۱۳۶۸ش۔

[2] : بعض محققین نے بیان کیا ہے کہ صحیفہ سجادیہ صدر اسلام میں تالیف ہونے والی چھٹی کتاب ہے: الصحیح ان اول من صنف امیرالمومنین ثم سلمان ثم ابوذر ثم الاصبغ بن نباته ثم عبیدالله بن ابی رافع ثم صنف الصحیفه الكامله.

[3] :ابن شھر آشوب نے "معالم العلماء" میں متوکل بن عمیر کے حالات زندگی کے ذیل میں صحیفہ سجادیہ کو "زبور آل محمد"؛ اور یحی بن محمد حسینی الدلفی کے حالات کے ذیل میں "انجیل اھل بیت" کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔

[4] : رجوع كریں:  ینابیع المودة، (سلیمان بن ابراهیم قندوزی): ج‏1 ص‏599؛ ج 2ص ،630،نجف، مكتبۃ الحیدریۃ، 1384 ه۔ ‏‏1965 م

[5] : المناقب (ابن شھر آشوب):

[6] ترجمہ وشرح صحیفہ کاملہ سجادیہ (سید علی نقی فیض الاسلام): مقدمہ ص۴،  ناشر مرکز نشر آثار فیض الاسلام، تھران، سنہ۱۳۶۸ش۔

[7] : ماھنامہ پاسدار اسلام، شمارہ ۱۰، مھر ماہ ۱۳۶۲ش، صفحہ۱۳۔

[8] : صحیفہ سجادیہ (ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین): مقدمہ کتاب۔

[9] :فرھنگ صحیفہ سجادیہ (منصور خاکسار): انتشارات نبوغ، قم طبع دوم، ۱۳۷۷ ش۔

[10] : صحیفہ سجادیہ، طبع شیخ حمد آفرندی، بحوالہ مقدمہ آیت اللہ مرعشی نجفی : صفحہ ۳۱۸ تا ۳۲۲۔

[11] : رجوع كریں:  ینابیع المودة (سلیمان بن ابراهیم قندوزی):نجف، مكتبۃ الحیدریۃ، 1384 ه۔ ‏‏1965 م، ج‏1 - 2، ص ص‏599 ،630،

[12] : مرکز نشر معارف اسلامی در جہان

[13] : نگرشی کوتاہ بر عملکرد ۲۲ سالہ مرکز نشر معارف اسلامی در جہان:ص۴۶۔

[14] : حوالہ سابق:صفحہ۱۳۔

[15] : صحیفہ سجادیہ دعا نمبر ۴۸، عید قربان اور روز جمعہ کی دعا۔

سوال بھیجیں